حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ ۔ ۔ ۔دوسری قسط
شاہدنذیر چودھری
شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂنوشاہیہ کی خدمات
حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ سلسلہ نوشاہیہ کے بانی تھے۔ آپؒ شریعت و طریقت پر عمل پیرا ہوتے۔ قول و فعل اوراد وظائف اور سنّت رسولﷺ سے متجاوز نہ ہوتے تھے۔ آپؒ غیر شرعی ریاضت کی سختی سے مخالفت فرماتے ۔جو بھی انسان آپؒ کے حلقۂ ارادت میں آ جاتا وہ باقاعدہ پنجگانہ باجماعت، تہجد و نوافل ادا کرنے کا عادی ہو جاتا۔ آپؒ کی چشم فیض سے بگڑی سنور جاتی تھی۔ آپؒ کے نزدیک جو شخص حکام شرعیہ کی پیروی نہ کرتا اسے پیر کہنے سے منع فرماتے اور غیر شرعی فقیروں کی سختی سے مذمت فرماتے۔ آپؒ کا مشہور ارشاد ہے ’’جو شخص راہ سنّت سے انحراف کرتا ہے اسے منصب ولایت نہیں مل سکتا‘‘۔ آپؒ قادر الکلام صوفی شاعرتھے،اردو پنجابی اور فارسی میں آپ کا کلام اثاثہ ہے ۔ اتباع سنت کے منحرف کے بارے آپ کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ آپؒ نے فرمایا
سچی شرع رسول دی غیر شرع سب جھوٹھے
نوشہ کہے غیر شرع نوں نہیں خیر وچ ٹھوٹھے
آپؒ نے سنت رسولﷺ کو زندہ کر دیا تھا یہی وجہ تھی کہ اپنے دور کے کئی علماء فقہا بھی آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہوئے تفاخر محسوس کرتے اور آپؒ سے علمی و روحانی فیض حاصل کرتے۔ حضرت مجدد الف ثانی کے استاد گرامی ملا کمال الدین کشمیری اور پنجاب کی ممتاز روحانی شخصیت ملا عبدالحکیم سیالکوٹی جیسے جیّد اور ممتاز علماء پیرانہ سالی کے باوجود آپؒ کے قدموں میں بیٹھنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔
حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابو الہاشم تھی لیکن آپؒ اپنے لقب حاجی ،نوشہؒ اور خطاب گنج بخش کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپؒ کا خاندان علم و فضل میں یکتا اور درجہ ولایت پر متمکن تھا۔ تقویٰ پرہیزگاری اور بزرگی نے آپؒ کے خاندان کو بے پناہ عزت و توقیر عطا کی۔آپ حضرت عباس علمدار بن حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک میں سے تھے۔ آپؒ نے ستارہویں صدی میں رشد و ہدایت کی شمع سے برصغیر پاک وہندمیں اجالا کیا۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
حضرت نوشہ گنجؒ کے آباؤ اجداد بغداد مقدس سے ہجرت کر کے پنڈدادن خان کے ایک گاؤں پنن وال میں قیام پذیر ہوئے ۔کچھ عرصہ بعد وہ تحصیل پھالیہ کے ایک گاؤں گھوگانوالی میں آباد ہوگئے ۔ یہ گاؤں آج بھی تحصیل پھالیہ میں اسی نام سے معروف ہے۔ آپ959ھ بمطابق 1552ء میں اسی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے بزرگوں سے منقول ہے آپؒ کی ولادت کی بشارت آقائے دو عالمؐ نے دی تھی۔ آپؒ کے پیر و مرشد حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے آپؒ کی والدہ ماجدہ تک اس شہادت کو پہنچایا اور ہدایت فرمائی ’’بی بی بی ربّ کریم تمہیں ایک سعادت مند بیٹا عطا فرمائے گا ۔اسکا نام فخر کونینؐ کے اسم گرامی پر محمد رکھیو۔ وہ نور مجسسّم ہو گا اور اس کی ضیاء کی برکت سے گمراہ دنیاکا اندھیرا چھٹ جائے گا‘‘۔
حضرت نوشہ گنجؒ کی والدہ ماجدہ بی بی جیونی بھی ولیہ کاملہ تھیں۔ عصمت و پاکیزگی اور سخاوت کا خمیر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔انکے والد گرامی قصبہ ہیلاں کے ایک عالم دین اور صاحب طریقت مفتی شیخ عبد اللہ تھے۔ حضرت نوشہ گنجؒ کے والد گرامی سید علاؤ الدین اپنے دور کے نہایت جید و معتبر بزرگ تھے۔ حضرت سید علاؤ الدینؒ نے سات بار پیدل حج کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔
حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کی ولادت سے قبل حضرت سید علاؤ الدین حج کے لئے روانہ ہوئے تو آپؒ نے اپنی رفیقہ حیات کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ’’اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اے میری زوجہ محترمہ اس بارے میں آپؒ کو یہ نوید دے کر جا رہا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بار آپ کے ہاں جو صاحبزادہ پیدا ہو گا وہ دین کا پہلوان ہو گا۔ میں خانۂ خدا اور روضۂ رسولﷺ پر جا کر اپنے نور نظر کی ولادت پر شکرانے کے نفل ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپؒ عازم حجاز مقدس ہوئے اور چند ماہ بعد ہی حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کی ولادت ہو گئی۔
آپؒ مادرزاد ولی تھے لہٰذا آپؒ سے عہد طفولیت میں ہی کرامات کا ظہور ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ نے اس کا ذکر حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ سے کیا تو آپؒ نے فرمایا۔ ’’بی بی تمہارے اس فرزند ارجمند کی نگہبانی ملائکہ کرتے ہیں۔ ربّ الملائکہ اپنی نیک روحوں کو اپنے پیارے بندوں کی حفاظت پر مامور فرماتا ہے لہٰذا آپ مطلق پریشان نہ ہوا کریں۔‘‘
ابھی آپؒ کے والد گرامی سفر حجاز سے واپس نہیں آئے تھے۔ ایک روز آپ گہوارے میں استراحت فرما رہے تھے۔ گھر میں کام کرنے والی ایک خاتون آپؒ کو اٹھانے کے لئے گہوارے کے پاس آئی تو آپؒ کے پاس ایک بڑا ناگ بیٹھا دیکھ کر چیخ اٹھی اور گھبرا کر آپؒ کی والدہ ماجدہ کے پاس گئی اور انہیں ساری روداد بیان کی۔ والدہ اس عورت کے ساتھ واپس آئیں تو دیکھا وہاں سانپ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ والدہ نے دیکھا کہ حضرت نوشہ گنجؒ بخش قدس سرہٗ نہایت سکون سے سو رہے ہیں۔ والدہ نے گہوارہ کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا اور اس خاتون کی جانب دیکھا تو وہ بولی۔ ’’خدا کی قسم بی بی میں نے خود ایک بڑا سانپ دیکھا ہے‘‘۔
آپؒ کی والدہ اسرار الٰہی اور رموز ولایت کو سمجھتی تھیں۔ آپؒ نے کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے تم نے وضو کے بغیر میرے فرزند کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ یاد رکھو آئندہ طہارت و پاکیزگی مکمل کر کے ہی صاحبزادے کو ہاتھ لگانا۔ اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں فرماتا کہ اس کے دوستوں کو ناپاک ہاتھوں سے چھوا جائے‘‘۔ خاتون نے اعتراف کیا کہ واقعی اس وقت وہ پاکیزہ نہیں تھی۔ والدہ ماجدہ نے دوسرے ملازموں اور گھر والی خواتین کو بھی سختی سے کہہ دیا کہ آئندہ کوئی وضو کئے بغیر ان کے فرزند کو ہاتھ نہ لگایا کرے۔
حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کی عہد طفولیت میں کرامات کا ذکر پھیلنے لگ گیا تھا۔لوگ دور دراز سے آپؒ کی زیارت کرنے کے لئے آنے لگے ۔ اس دوران سیّد علاؤ الدین طویل مسافت کے بعد اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔ انہوں نے راستے میں ہی اپنے فرزند کی کرامات کا ذکر سن لیا تھا ۔وہ اس نیک بختی پر قدم قدم پر شکرانے کے نوافل ادا کرتے رہے۔ آپؒ جب گھر پہنچے تو بے تابی سے سب سے پہلے فرزند کو دیکھنے کے لئے انکی چارپائی کی جانب گئے۔ اس وقت حضرت نوشہ گنجؒ بخش قدس سرہٗ منہ پر چادر لئے سو رہے تھے۔ والد گرامی نے جب چادر کا کونہ اٹھا کر صاحبزادے کو دیکھنا چاہا تو حضرت نوشہؒ کسی دوسری شکل میں متشکّل ہو گئے۔ آپؒ کے والد گرامی اس صورتحال پر پریشان ہونے کی بجائے مسکرا دیئے اور تبسّم سے فرمایا’’ اے نور نظر ہم آپ کے حال سے بے خبر نہیں ہیں۔ لہٰذا آپؒ کو اپنا چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ یہ سنتے ہی حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ اپنی اصل شکل میں آ گئے تو حضرت سیّد علاؤ الدین نے صاحبزادے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور ماتھا گال چوم چوم کر نہال ہوتے رہے۔
حضرت نوشہ گنجؒ بخش قدس سرہٗ عہد طفولیت میں ہی علوم اور اوراد وظائف میں مستغرق رہتے تھے۔ آپؒ اپنے ہم عصر بچوں میں غیر معمولی جسامت اور توانائی کے حامل تھے۔ آپؒ جب باقاعدہ پڑھنے کے قابل ہوئے تو آپؒ کے والد گرامی آپؒ کو جاگو تارڑ کے مدرسہ میں لے گئے۔ اس گاؤں کے مدرسہ کے مہتمم حافظ قائم الدین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلیل القدر صفات سے نوازا تھا۔ حافظ قائم الدین عارفین و صالحین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ بلند پایہ قاری اور متبخر عالم تھے۔ ذکر الٰہی میں مستغرق رہتے اور اپنے شاگردوں کو بھی ذکر جہر کی ہدایت کرتے تھے۔ قاری صاحب نیند کی حالت میں ہوتے تو ان کا دل اللہ، اللہ کے ذکر سے دھڑکتا رہتا تھا۔ حافظ قائم الدین نے حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کو دیکھا تو آپ پر کشف ہوا کہ یہ بچہ انتہائی غیر معمولی خصوصیات کا مالک ہو گا۔ آپؒ نے حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کے والد گرامی کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا۔ ’’حضرت جی آپ کے صاحبزادے کی پیشانی سے نور ولایت پھوٹ رہا ہے۔ اب ہم پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ہم آپؒ کے فرزند کو علوم ظاہری کا درس دیا کریں اور اس سے علوم باطنی کا فیض حاصل کیا کریں۔ یہ دو طرفہ علمی تجارت ہے اور مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو اپنی اپنی نیّت کا پھل دے گا‘‘۔
قاری صاحب نے حضرت نوشہؒ کو ہمہ وقت اپنی نگاہوں کے سامنے رکھا اور آپؒ کی تعلیم پر مکمل توجہ مرکوز کئے رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت سید نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ نے چند ماہ میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔