منٹو کی شادی اس عورت سے ہوجاتی تو ادب میں ایٹمی دھماکہ ہوجاتا
فریدالدین نظامی
عصمت چغتائی اردوکی بے باک افسانہ نگار تھیں ۔اُدھر سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے بھی پورے سماج کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔دونوں افسانوں کی دوھاری تلوار سے سماجی روایات کی گردنیں کاٹتے تھے۔یہ اردوادب میں جدید افسانے کا دور تھا ۔دونوں کے پرستاروں کے دل میں یہ حسرت پیدا ہونے لگی کہ کاش عصمت چغتائی اور منٹو کی شادی ہوجائے ۔اس کا چرچا اب تک ادب میں ہوتا آرہا ہے ۔منٹو صاحب کے کانوں تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے عصمت چغتائی کا خاکہ اس بنیاد پر لکھ ڈالا جس نے بڑا شہرہ حاصل کیا ۔منٹو نے عصمت چغتائی سے اپنی شادی کی خبروں پر کیا لکھا، اسے پڑھ کر بے حد لطف آتا ہے۔اس خاکہ سے ایک اقتباس دیکھئیے اور آپ بھی اسکا لطف اٹھائیے۔
منٹو لکھتے ہیں’’آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا۔ حیدر آباد سے ایک صاحب کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا۔
’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت نے شاہد سے شادی کرلی اور منٹو۔۔۔‘‘
انہی دنوں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفوں کی ایک کانفرنس ہوئی۔ میں اس میں شریک نہیں تھا۔ لیکن حیدر آباد کے ایک پرچے میں اس کی رو داد دیکھی، جس میں یہ لکھا تھا کہ وہاں بہت سی لڑکیوں نے عصمت کو گھیر کر یہ سوال کیا۔’’ آپ نے منٹو سے شادی کیوں نہ کی؟‘‘
مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات درست ہے یا غلط۔ لیکن جب عصمت بمبئی واپسی آئی تو اس نے میری بیوی سے کہا کہ حیدر آباد میں جب ایک لڑکی نے اس سے سوال کیا۔’’کیا منٹو کنوارا ہے؟‘‘ تواس نے ذرا طنز کے ساتھ جواب دیا۔’’جی نہیں‘‘ اس پروہ محترمہ عصمت کے بیان کے مطابق کچھ کھسیانی سی ہو کر خاموش ہوگئیں۔
واقعات کچھ بھی ہوں۔ لیکن یہ بات غیر معمولی طور پر دلچسپ ہے کہ سارے ہندوستان میں ایک صرف حیدر آباد ہی ایسی جگہ ہے جہاں مرد اور عورتیں میری اور عصمت کی شادی کے متعلق فکر مند رہے ہیں۔
اس وقت تو میں نے غور نہیں کیا تھا لیکن اب سوچتا ہوں۔ اگر میں اور عصمت واقعی میاں بیوی بن جاتے تو کیا ہوتا؟ یہ’’اگر‘‘ بھی کچھ اسی قسم کی اگر ہے۔ اگر کہا جائے کہ ’’اگر‘‘ قلوپطرہ کی ناک ایک انچ کا اٹھارھواں حصہ بڑی ہوتی تو اس کا اثر وادی نیل کی تاریخ پر کیا پڑتا۔۔۔ یہاں عصمت قلوپطرہ اور نہ منٹو انطنی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر منٹو اور عصمت کی شادی ہو جاتی تو اس حادثے کا اثر عہدِ حاضر کے افسانوی ادب کی تاریخ پر ایٹمی حیثیت رکھتا۔ افسانے افسانے بن جاتے۔ کہانیاں مْڑ تڑ کر پہیلیاں ہو جاتیں۔ انشاء کی چھاتیوں میں سارا دودھ خشک ہو کر یا تو ایک نادر سفوف کی شکل اختیار کرلیتا یا بھسم ہو کر راکھ بن جاتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ نکاح نامے پر اس کے دستخط ان کے قلم کی آخری تحریر ہوتے۔ لیکن سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی کون کہہ سکتا ہے کہ نکاح نامہ ہوتا۔ زیادہ قرین قیاس تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ نکاح نامے پر دونوں افسانے لکھتے اور قاضی صاحب کی پیشانی پردستخط کردیتے تاکہ سند رہے۔‘‘