’’تم پریذیڈنٹ ہاؤس میں پلا ہوا اچھا سرکاری درباری گھوڑا ہے ‘‘ایک ادیب نے سرکاری ادارے کی سربراہی سنبھالنے سے عذر کرنے والی شخصیت کو ایسی دلیل دی کہ وہ یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور ہوگئی
لاہور(ایس چودھری)پاکستان میں ادبی سطح پر آزادانہ نظریات کو پروان چڑھانے اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ادبی معیارات ومسائل کو حکومتی سطح پر حل کرنے کے لئے رائٹرز گلڈ کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن اس میں سیاست در آئی تھی ،گروپ بن گئے اور اچھے بھلوں کی پگڑیاں اچھلتی رہیں لیکن رائٹرز گلڈ نے پھر بھی کارہائے نمایاں کردار ادا کیا۔
قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ ‘‘میں اس ادارہ کے حوالہ سے ایک دلچسپ صورتحال کا ذکر کیا ہے ۔لکھتے ہیں’’جب رائٹرز گلڈ کے انتخاب کا لمحہ آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ چند سینئر ادیبوں کا ارادہ ہے کہ مجھے گلڈ کے پہلے سیکرٹری جنرل کے طور پر بلا مقابلہ منتخب کیا جائے۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ انجمن سازی کے بکھیڑوں سے نپٹنے کے لیے میری صلاحیت کار نہایت محدود ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ احساس بھی تھا کہ میری سرکاری پوزیشن کی وجہ سے گلڈ پر خواہ مخواہ بے بنیاد شکوک و شبہات کا غبار بدستور چھایا رہے گا۔ میں نے ان خدشات اور اپنی ذہنی ہچکچاہٹ کا ذکر کئی افراد سے کیا لیکن کوئی اسے میرا عذر لنگ سمجھ کر ٹال دیتا اور کوئی اسے میری کسر نفسی پر محمول کرکے رد کر دیتا تھا۔ ایک محفل میں تو کوئی جسیم الدین نے اپنی بنگالی نما اردو میں آخری فیصلہ اس طرح دے دیا۔
’’ارے بھائی، اب تم ہم سے بھاگن چاہے گا تو بھی سکے گا نہیں۔ گلڈنیا بچہ ہے۔ اس کی سواری کے لیے ایک ٹھور گھوڑا درکار ہے۔ تم پریذیڈنٹ ہاؤس میں پلا ہوا اچھا سرکاری درباری گھوڑا ہے۔ تم ہمارے بہت سارے کام آستکا ہے۔ اب ہم تم کو بالکل نہیں چھوڑے گا۔‘‘واضح کردوں گھوڑے کا لفظ میں نے فقط اپنی عزت بڑھانے کی خاطر استعمال کیاہے۔ جسیم الدین نے دراصل کسی اور چوپائے کا نام لیا تھا‘‘