بیٹی کہتی رہی ’ماں میں رات سے بھوکی ہوں، کھانا کھالینے دو‘ ،بیٹی کو زندہ جلا کر سنگین غلطی کی: پروین

بیٹی کہتی رہی ’ماں میں رات سے بھوکی ہوں، کھانا کھالینے دو‘ ،بیٹی کو زندہ جلا ...
بیٹی کہتی رہی ’ماں میں رات سے بھوکی ہوں، کھانا کھالینے دو‘ ،بیٹی کو زندہ جلا کر سنگین غلطی کی: پروین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(رپورٹ :محمد یونس باٹھ) میں نے اپنی بیٹی کو زندہ جلا کر زندگی کی بہت بڑ ی سنگین غلطی کی ہے میری سزا پھانسی ہے ۔اب مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں مجھے بیٹی کی وہ باتیں خاص طور پر آخری بات بار بار یاد آ رہی ہے ۔اس نے کہا تھا اماں مجھے کھانا تو کھا لینے دو میں رات کی بھوکی ہوں لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی ۔اس کے گلے میں ڈوپٹہ ڈالا اور جھٹکے سے عقب کی جانب اسے زمین پر گرا دیا اور ساتھ ہی اس کے اوپر مٹی کے تیل کی گیلن انڈیل دی اور فوراً آگ لگا دی دیکھتے ہی دیکھتے آگ کا بھانبڑ مچ گیا اور میں نے کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دی بیٹی نے بڑی چیخ و پکار کی نہ جانے مجھے اس پر کیوں ترس نہ آیا حالانکہ شادی کے بعد جب میں اسے گھر لائی تھی تو اس نے روتے ہوئے میرے پاؤں پکڑ لئے تھے کہ ماں مجھے معاف کر دو میں نے آپ کی رضامندی کے بغیر شادی کر کے بہت غلطی کی ہے اگر آپ خوش نہیں ہیں تو میں اس سے طلاق لے لیتی ہوں نہ جانے اس کی باتیں مجھے کیوں اچھی نہیں لگ رہی تھیں ۔

شادی کے بعد جب میں اسے گھر لے آئی تھی تو وہ 8دن تک میرے پاس رہی روزانہ میں اس کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی تھی پہلے میں نے سوچا کہ اس کو سوئے ہوئے گلے پر چھری چلا کر ابدی نیند سلا دوں پھر میں نے سوچا شاید اس میں میں کامیاب نہ ہو سکوں ۔قتل کے دوران کہیں وہ اٹھ کر شور نہ کر ے ۔پھر میں نے سوچا کہ چلو اس کو زہر دے دیتی ہوں، گندم میں رکھنے والی گولیاں بھی میں گھر لا چکی تھی سوچا کہ کھانے میں ملا کر اسے کھلا دوں، پھر خیال آیا کہ کھانا تو اس سے کڑوا ہو جائے گا ،پھر سوچا کھانے میں کوئی بیہوش کرنے والی چیز ڈال کر بیہوش ہونے کے بعد اس کے سر پر ڈنڈا مار کر اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دوں ،ہاں یہ ساری باتیں میرے بیٹے اور بہو کو بھی معلوم تھیں ۔

وہ بھی مجھے کہتے تھے کہ اب ہماری عزت نہیں رہی ۔اب ہم رشتہ داروں اور محلہ داروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، بہو اور بیٹے کی یہ باتیں مجھے کھائے جا رہی تھیں اور میں روزانہ بیٹی کو قتل کرنے کی تدبیریں سوچ کر سوتی تھی جبکہ اس دوران میری بڑی لاڈ پیار سے پالی ہوئی بیٹی روزانہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو کر مجھے منانے کی کوشش کرتی رہی، نہ جانے کیوں میں نے اسے معاف نہ کیا اور میں ہر وقت اس کے خاتمے کا ہی ذہن بناتی رہی ۔پروین نے سلاخوں کے پیچھے سے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ اب وہ سلاخوں کو ٹکریں مار کر روتی رہتی ہے جب اسے بیٹی کی یاد آتی ہے تو وہ پاگلوں کی طرح باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے اس نے بتایا کہ میں کپڑوں سمیت ہر وقت اپنے اوپر پانی بہاتی رہتی ہوں کبھی سوچتی ہوں کہ میری زندگی بھی کسی قابل نہیں رہی اب مجھے تو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ۔کیوں نہ میں اپنے دیگر بچوں کو اس قتل سے بچا لوں کیونکہ ان کا گناہ بھی تو نہیں ہے ۔

انہوں نے تو صرف میرے ساتھ مشاورت ہی کی،وہ تو صرف مٹی کا تیل ہی لیکر آئے تھے ۔انہوں نے تو مجھے ہی کہا تھا کہ اس کو قتل کرنا ہی بہتر ہے ۔میرے بچے اور بہو کہتی تھی اگر ہم نے اس کو زندہ چھوڑ دیا تو آنے والی ہماری نسل کی بچیاں اسی طرح بھاگ کر شادیاں کرتی رہیں گیں اس لیے جتنی جلدی ہو اس کو اس طرح قتل کرو کہ آنے والی نسلیں خوف زدہ ہو کر کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں ۔پروین نے بتایا کہ اب اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا ۔اس لیے میری خواہش ہے کہ مجھے بھی جلدی سے جلدی سزا دے دی جائے ۔تاکہ میں بھی اپنی بیٹی کے پاس جا کر سکون حاصل کرسکوں ۔

مجھے تو مرنے کے بعد بھی سکون نہیں آئے گا میں اللہ سے معافی مانگ کر اپنی رہائی کی بھی التجا کروں گی ۔ہو سکتا ہے کسی موقعہ پر مجھے معافی مل ہی جائے ۔پاگلوں کی طرح باتیں کرتے ہوئے پروین جو ایک کرسی پر بیٹھی روزنامہ پاکستان کی ٹیم کو تفصیلات بتا رہی تھی اچانک نیچے گری اور بیہوش ہو گئی ۔