ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی ضم ہوں یا الگ الگ سیاست کریں ، تصادم نہیں ہونا چاہیے : ڈی جی رینجرز سندھ

ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی ضم ہوں یا الگ الگ سیاست کریں ، تصادم نہیں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(آئی این پی ) ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے کہا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی ضم ہوں یا الگ الگ سیاست کریں بس تصادم نہیں ہونا چاہیے ،ہمارا مقصد ہے کہ کراچی میں ماضی والے حالات دوبارہ نہ ہوں،خدشہ ہے الیکشن کے قریب حالات ماضی والے نہ ہوجائیں،کراچی میں رینجرز آپریشن شروع ہونے سے پہلے دن میں 6 سے 8 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے تھے ، 1 سے 2اغواء کاری کے واقعات اور 80 سے 100 ملین تک کراچی سے بھتہ خوری کی مد میں جاتا تھا ، کراچی میں جب بھی ہڑتال ہوتی تھی تو اس میں 15 سے 20 بلین روپے کا نقصان ہوتا ہے ، 2013 تک تشددسے30 ہزارافرادکی جانیں گئیں،1992 میں ایم کیوایم ٹوٹی توحقیقی ایم کیوایم بننے سے کتنے فسادات ہوئے، پی ایس پی،ایم کیوایم معاہدے کی شرط تھی کہ پرامن سیاست ہوگی، ہمارامقصد ہے کہ قربانیوں کے بعدکراچی میں ماضی جیسے حالات نہ ہوں،ہماری استدعاہے کہ سیاست میں بھتہ اورٹارگٹ کلنگ نہیں ہونی چاہیے،معاہدہ ہ ٹوٹنے کی ذمہ داری میں کسی شخصیت کانام نہیں لوں گا،زیرحراست افرادکاتعلق جس جماعت سے ہو وہ ہم سے بات کرتے ہیں،معاہدے میں کب لکھاہے کہ کسے ووٹ اورکس سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔ وہ پیر کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن 2013 سے پہلے کے حالات دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ 1995 سے لے کر ستمبر 2013 تک سی پی ایل کے ریکارڈ کے مطابق 30 ہزار کے قریب لوگ کراچی میں قتل کیے گئے ۔ جس کی بنیاد سیاست ، فرقہ واریت ، لسانی کشمکش اور دہشت گردی ہے ۔ اگر اس سے بھی پیچھے جائیں تو 1987 سے لے کر 1995 تک 22 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں ۔ ٹوٹل 52 ہزار جانیں صرف کراچی میں چلی گئیں جب کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی پورے پاکستان میں پچھلے 17 18, سال کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 22 ہزار جانوں کا ضیاع ہوا ہے تو اس طرح پورے ملک میں ہونے والے جانی نقصان سے صرف کراچی میں اس سے ڈھائی سو فیصد زیادہ جانوں کا ضیاع ہوا ہے ۔میجر جنرل محمد سعید نے کہا کہ کراچی میں رینجرز آپریشن شروع ہونے سے پہلے دن میں 6 سے 8 ٹارگٹ کلنگ کے ،ایک یا دو اغواء کاری کے واقعات ہوتے تھے ۔ اداروں کا جائزہ ہے کہ 80 سے 100 ملین تک کراچی سے بھتہ خوری کی مد میں جاتا تھا ۔ ہر مہینے ایک یا دو بڑے دہشتگردی کے واقعات بھی ہوتے تھے اور جب کراچی میں ہڑتال ہوتی تھی تو 15 سے 20 بلین نقصان ہوتا تھا ۔ آج کے کراچی کے جائزہ لیں تو 2017 میں اب تک اغواء کے صرف پانچ کیسز سامنے آئے ہیں ۔ پورے سال میں 13 پولیس والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے ۔ سیاسی بنیادوں پر صرف 2 کیسز ہوتے ہیں جس میں ایک واقعہ پی ایس پی کے دو کارکنوں ندیم مولانا اور رشید کے قتل کا ہے جب کہ دوسرا واقعہ ایک یوسی کے چیئرمین کے قتل کا ہے ۔ جب کہ دہشتگردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا ۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال ایسی ہے کہ چند ہفتے قبل کراچی میں بوہرا کمیونٹی کا ایک ایونٹ ہوا جس میں 50 ہزار کے قریب پوری دنیا سے لوگ آئے اور آج بھی ایک ایکسپو ایونٹ ختم ہواہے جس میں 55 ممالک کے وفود آئے ہوتے تھے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف بیانات کے سامنے آنے کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سنسی خیز بیانات آئے جن پر تشویش ہے مگر بہت زیادہ تشویش نہیں ہے کیونکہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ کراچی کے امن کے لئے ہے ۔ پاکستان میں غیرملکی ایجنسیاں دہشتگردی میں ملوث ہیں مگر کراچی کے حالات خراب کرنے میں یہاں کے لوگ ہی ملوث ہیں ۔ اب کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہت بہترہے۔ کراچی آپریشن کافیصلہ اتفاق رائے سے کیاتھا،جب سے رینجرز کو پولیس کاکردارملا تو پھر رینجرز کی سیاسی نمائندوں سے بات چیت توہوگی۔ صرف ایم کیوایم نہیں تمام سیاسی جماعتیں ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔1992 میں ایم کیوایم ٹوٹی توحقیقی ایم کیوایم بننے سے بہت زیادہ فسادات ہوئے۔ ہمارامقصد ہے کہ قربانیوں کے بعدکراچی میں ماضی جیسے حالات نہ ہوں۔ہماری ایک ہی شرط ہے کہ جوماضی میں ہواوہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے جونمائندے رابطے میں ہیں،وہ تبدیل نہیں ہوئے۔اسٹیبلشمنٹ کے جونمائندے 2013 میں تھے اب بھی وہی ہیں۔ کراچی آپریشن کافیصلہ اتفاق رائے سے کیاتھا۔رینجرزسول اورملٹری انٹیلی جنس اداروں کی مددکے بغیرنہیں چل سکتی۔ رینجرزآپریشن کیلئے ہوم ورک اورانٹیلی جنس اطلاعات ہوتی ہیں۔زیرحراست افرادکاتعلق جس جماعت سے ہو وہ ہم سے بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس پی اورایم کیوایم 8 ماہ سے ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ انہوں نے کس طرح کی سیاست کرنی ہے انہیں خودطے کرنا ہے۔ہماری استدعاہے کہ سیاست میں بھتہ اورٹارگٹ کلنگ نہیں ہونی چاہیے۔ پی ایس پی اورایم کیوایم معاہدے کی شرط تھی کہ پرامن سیاست ہوگی۔معاہدے میں کب لکھاہے کہ کسے ووٹ دینا ہے اورکس سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قربانیوں کے بعدکراچی میں ماضی جیسے حالات نہ ہونے چاہیئے اورجوماضی میں ہواوہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ سب سیاست کریں مگرتشددکاعنصرنہیں ہوناچاہیے۔ تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ خدشہ ہے کہ الیکشن کے قریب پرانے حالات پیدانہ ہوجائیں۔ 22 اگست کومیڈیاپرحملے کے بعدتمام افرادکوگرفتارکیا۔

ڈی جی رینجرز

مزید :

صفحہ آخر -