لیڈر عام انسان نہیں ہوتا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اجتماعیت کے شعور کے ساتھ پیدا کیا ہے۔اس شعور کا نتیجہ ہے کہ وہ گھر اورخاندان بناتے ، تنظیموں اوراداروں کی صورت گری کرتے ، قوم اور معاشروں کو وجود بخشتے اور ملک اور ریاست کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کی اجتماعیت کا یہ شعور ا ن کی طاقتوں کو مجتمع کرتا اور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ کم تعداد اور وسائل میں ہونے کے باجود مشکل حالات پر قابو پا کر ان مقاصد کوحاصل کر لیں جنہیں وہ تنہا کسی صورت بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
اجتماعیت کا ایک لازمی تقاضہ ہے کہ انسان اپنے درمیان میں سے کسی شخص کو قیادت کے منصب کے لیے چنیں جو ان کی منتشر ا نفرادیت کو اپنی شخصیت اور فیصلوں کے ذریعے سے ایک اجتماعی شکل دے سکے۔یہ ظاہر ہے کہ ایک بلند اور اعلیٰ مقام ہے جو ہر کسی کو نہیں مل سکتا۔وقت اور حالات گرچہ بہت سوں کو لیڈر کے مقام پر پہنچا سکتے ہیں ، مگر یہی وقت اور حالات کچھ عرصہ میں یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ کون حقیقی لیڈر ہے اور کون محض قسمت کی کرم نوازی کی بنا پر اس مقام پر پہنچاہے۔ تاہم اس عرصہ میں وہ لیڈر اپنے ساتھ اپنی قوم، ملت، پیروؤں اور مقتدیوں کی بربادی کا سامان کر چکا ہوتا ہے۔اس لیے اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایک حقیقی لیڈر کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں تاکہ صاحبان شعور، لیڈر کا انتخاب کرتے اور اس کے پلڑ ے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے درست فیصلہ کرسکیں۔
ایک حقیقی لیڈرعام لوگوں سے کئی اعتبار سے بلند اور برتر جگہ کھڑ ا ہوتا ہے۔ لیکن ان میں سب سے اہم چیز اس کی اخلاقی حیثیت ہوتی ہے۔ لوگ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ایسے کسی آدمی کا ساتھ نہیں دے سکتے جس کی اخلاقی سطح انہیں اپنی ذات سے پست محسوس ہو۔ اگر ایسا کبھی ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مفادات وتعصبات نے ان لوگوں کو اکھٹا کیا ہے نہ کہ کسی اعلیٰ و ارفع مقصد نے۔
اعلیٰ اخلاقی شخصیت کے علاوہ بھی لیڈر کئی دیگر پہلوؤں سے عام لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو اپنی گفتگو ، وجاہت ، اخلاق و سیرت ، علم و شخصیت، طاقت و ذہانت اور دیگر وہبی(God Gifted) اور اکتسابی صلاحیتو ں کی مدد سے متاثر کرتا ، انھیں اپنا بناتا اورکسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے انہیں اپنے ساتھ لے کرچلتا ہے۔وہ ان کے مشورے اور تنقیدیں تحمل سے سنتا، اختلافات کو رفع کرتا اور غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کی یہی خصوصیات بہترین صلاحیت کے حامل لوگوں کواس کے اردگرد اکھٹا کر دیتی ہیں اور پھر ان کی صلاحیتوں ، وسائل اور توانائیوں کو مجتمع کر کے وہ اجتماعی مقاصد کو حاصل کرتا ہے۔
لیڈر کی ایک اور بنیادی خصوصیت مشکلات میں حوصلہ برقرار رکھنا اور دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔لیڈر پر حالات، دوست، دشمن سب یکساں طور پر دباؤڈالتے ہیں۔ایسے میں اگر اس میں حوصلہ اور برداشت نہ ہوتوحالات اس سے غلط فیصلہ کرادیتے ہیں ، مخالفین اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے اور دوست نامناسب اقدامات سرانجام دلوادیتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ لیڈرحالات پر گہری نظر رکھتا ہو، متعلقہ شعبے کا پورا علم رکھتا ہو، اس میں تجزیہ و تحلیل کی بھرپور صلاحیت ہو، اپنے مقاصد اور ان کے حصول کے طریقہ کار کے بارے میں اس کا ویڑن بالکل واضح ہو۔
لیڈر کی ایک اور خصوصیت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔لیڈر کا اصل کام فیصلہ کرنا ہے۔ وہ فیصلے کرتا ہے اور یہی فیصلے لوگوں کی تقدیر بناتے ہیں۔درست فیصلوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں نہ کہ رجحانات، مفادات، خواہشات اور جذبات کے مطابق۔
ٹھیک فیصلے کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ٹھیک وقت پر ہوتا ہے۔ٹھیک وقت وہ ہوتا ہے جب متوقع فائدہ زیادہ سے زیادہ اور نقصان کم سے کم ہو، کیونکہ ہر فیصلہ میں کچھ نفع ہوتا ہے اور اس کی کچھ قیمت ہوتی ہے۔ٹھیک وقت کا علم حالات اور لوگوں کے بارے میں باخبر رہنے کی اس صفت کا نتیجہ ہے جو انسان کو مستقبل میں دیکھنے کی نگاہ عطا کرتی ہے۔چنانچہ باخبر رہنے لیے اسے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرنے چاہییں۔
فیصلہ غلط ہوجائے توایک حقیقی لیڈر ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ مگر اسے اپنی کمزوری کا تاثر کبھی نہیں دینا چاہیے۔ کمزور لوگ کبھی لیڈر نہیں بنتے۔اصل چیز یہ ہے کہ وہ تجزیہ کر کے غلط فیصلے کی وجہ بننے والے اسباب کا تعین کرے اور ذمہ دار لوگوں کو تنبیہ کرے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر لوگوں کی کمزوریوں کی رعایت کرنے ، ان سے چشم پوشی کرنے اور لوگوں کو معاف کرنے کی عادت بھی ہونی چاہیے۔
لیڈر انسان ہوتا ہے ، مگر عام انسان نہیں ہوتا۔ وہ منتظم اور مینیجر بھی نہیں ہوتا۔ وہ اعلیٰ کردار، متاثر کن صلاحیتوں ، صحیح و غلط کی تمیز، صبر و حلم اور حوصلہ مندی کے اوصاف کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی چیزیں لیڈر کو لیڈر بناتی ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔