بھیڑ کی نفسیات

بھیڑ کی نفسیات
بھیڑ کی نفسیات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دور جدید میں جہاں دیگر علوم و فنون میں غیر معمولی تحقیقات ہوئی ہیں وہیں ، انسانی نفسیات پر بھی بڑ ا غیرمعمولی کام ہوا ہے۔ انسانی نفسیات پر کیے گئے متعدد تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگ جب کسی ایک یا دو افراد کو کوئی نیا اور مختلف کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا اثر کم ہی قبول کرتے ہیں۔ مگر کام کرنے والوں کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی، لوگ اتناہی زیادہ اس کی پیروی کریں گے۔ مثلاً بازار میں ایک شخص اچانک ’ٹائم بم، ٹائم بم‘ کی صدا بلند کر کے بھاگنا شروع کر دے تو لوگ اسے دیکھ کر اس کی پیروی نہیں کریں گے۔ مگر بہت سارے افراد اگر یہی کریں تو باقی لوگ بلا تردّد ان کی پیروی کریں گے۔ انسانی نفسیات کے اس پہلو کو بھیڑ کی نفسیات کہا جاتا ہے۔
بھیڑ کی اسی نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ کسی نئے کام کے آغاز یا رواج میں بہت کم لوگ شامل ہوا کرتے ہیں۔ خاص کر کے جب یہ کام آخرت کی دعوت پر لبیک کہنے کا ہو۔ اس لیے کہ اس دعوت میں انسان کو فوری ملنے والی دنیا پر آخرت کی یقینی مگر بعد میں ملنے والی نعمتوں اور مادی مفادات پر اخلاقی اصولوں کو ترجیح دینے کی مشکل چڑ ھائی چڑ ھنی پڑ تی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ابتدا میں پیغمبروں تک کا ساتھ دینے والے لوگ بہت کم ہوا کرتے تھے۔ مگر یہی لوگ تھے جنہیں ’سابقون‘ یعنی سبقت لے جانے والے کہا گیا۔ اور قرآن میں ان کا بدلہ یہ بیان کیا گیا کہ یہ لوگ جنت میں اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوں گے۔ (واقعہ10۔11:56)
آج دنیا میں سوا ارب سے زیادہ مسلمان موجود ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کے تنگ راستے پر کوئی بھیڑ نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ نئے لوگ اس راستے پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن کوئی حوصلہ مند اگر آج بھی اس راستے پر چلنے کا عزم کر لے تو بلاشبہ خدا اسے سابقین میں گن لے گا اور قیامت کے دن اسے خدا کے قرب اور جنت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز کیا جائے گا۔
مگر بدقسمتی سے اس میدان میں بہت سے نادان لوگ اپنا ہدف اور گول متعین کرنے کے بعد بہت سا وقت، پیسہ اور توانائی اس کام میں لگاتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصہ میں معمولی مزاحمت اور پریشانی سے گھبرا کر اپنے مقصد سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بلا سوچے سمجھے اپنے اہداف متعین کرتے اور پورے جوش سے ان کے پیچھے دوڑ پڑ تے ہیں۔ مگر حقیقت کی گرمی ان کے جوش کو بھاپ بنا کر اڑ ادیتی ہے اور ان کے حصے میں وسائل کے زیاں ، مقاصد سے محرومی اور زندگی میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔
زندگی میں کامیاب صرف وہی لوگ ہوا کرتے ہیں جو سوچ سمجھ کر اپنے اہداف کا تعین کرتے اور پھر ان کو اپنا سب سے بڑ ا مقصد بنالیتے ہیں۔ ایسے لوگ مزاحمت اور رکاوٹوں سے گھبرائے بغیر اپنے مقصد کے لیے بھرپور جدوجہد کرتے ہیں اور پھر جلد یا بدیر اپنا مقصد پالیتے ہیں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -