بلوچ چرواہے جانوروں کی وہ باتیں بھی جانتے ہیں جو ماہرین نہیں سمجھ پاتے
ریگستان اور پہاڑوں میں بٹا ہوا بلوچستان مال مویشیوں کی جنت ہے، چرتے دوڑتے اور ہانکتے ہوئے جانور دیکھ کر بہت بھلا بھی لگتا ہے اور سوچ بھی جنم لیتی ہے کہ گوادر جیسے شہر کا صوبہ ابھی تک صدیوں پرانی روایات اور پیشوں سے منسلک ہے۔ ان مال مویشیوں کو چرانے والوں کو چرواہے کہا جاتا ہے۔ جو بلوچستان میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ یہ لاوارث لوگ ہی بلوچستان کے وارث ہیں۔انہی لوگوں کی وجہ سے بلوچستان کو مویشیوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے اور پاکستان کی معیشت میں روز بروز اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بلوچستان کی 93 فیصد زمین مال مویشیوں کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے، لیکن پانی کی کمی، اور خشک سالی کی وجہ سے چراگاہوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ فی الحال صرف 33 فیصد زمین مناسب پیداواری چراگاہوں کیلئے سمجھی جاتی ہے۔ بلوچستان میں مال مویشی پالنا زیادہ تر وسطی اور مغربی اضلاع میں پایا جاتا ہے۔
میں نے اسی موضوع پر چند مقامی چرواہوں سے بات چیت کی ۔مقامی چرواہے رحمان بروہی نے بتایا کہ میں جب چار سال کا تھا تو مَیں نے بھیڑوں اور بکریوں کی دیکھ بھال شروع کر دی تھیَ پانچ سال کا ہوا تو میں خود چرواہا بن گیاتھا۔ چند دنوں تک میں ان بھیڑ بکریوں کو سنبھال نہیں سکتا تھا مگر پھر ایک دن مجھے یہ کام بہت اچھا لگنے لگا۔ میں جب دس سال کی عمر کا ہوا تو میں ایک بہت اچھا چرواہا بن گیا۔ میں ان بھیڑ بکریوں کی زبان بھی سمجھنے لگا اور انکی بیماری تک پہچاننے لگ گیا۔ میری بھیڑیں صبح کی تازہ ہوا میں چرنے کی زیادہ شوقین ہیں اور صبح چرنے والے جانور ہمیشہ صحت مند رہتے ہیں۔یہ ہماری زبان بھی سمجھتے ہیں رحمان نے اس وقت ایک بکری کو بلایا( ارے واجہ بوکھو روغے) ارے یار کہا جارہے ہو۔حیرت انگیز طور پر بکری ٹھہر گئی اور رحمان اپنا ہاتھ اس کے سر پہ پھیرنے لگا۔
ایک اور چرواہے فرحاد نے بتایا کہ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب مَیں چھوٹا بچہ تھا تو ہم بہار کے موسم میں اپنی بھیڑ بکریوں کو چراگاہوں کی طرف لے جاتے تھے۔ وہ خوب چارہ کھا کھا کے تھک جاتی تھی تو ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے آرام کرتی تھی۔ اِس وقت ہم چرواہے بھیڑ بکریوں کا معائنہ کِرنے لگ جاتے تھے کہیں اْن میں سے کوئی بھیڑ یا بکری زخمی یا بیمار تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو اْن کا فوری علاج کرتے ہیں اور ان کو ریوڑ سے الگ کر دیتے تھے تاکہ کوئی اور بھیڑ بکری بیمار نہ ہوجائے۔
ایک بوڑھے چرواہے اسماعیل نے بتایا کہ بعض چرواہے بکریوں اور بھیڑوں کو خطرناک راستوں سے لے کر پہاڑوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اِن راستوں میں بہت سی گہری کھائیاں اور نوکیلے پتھر ہوتے تھے جن سے بھیڑیں اور اکثر بکریاں زخمی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ راستے میں ہی مر جاتی ہیں حتیٰ کہ ان راستوں پر بھیڑیے بھی ہوتے تھے ۔وہ بھی بھیڑوں پر حملہ کرکے اْنہیں ریوڑ سے دْور کر دیتے ہیں اور ان کو کھا بھی جاتے ہیں۔
ایک بوڑھے چرواہے مٹھل نے بتایا کہ رات کے وقت ہم بھیڑوں کی حفاظت کے لئے باڑے بنا لیتے ہیں۔ یہ باڑے ہم کانٹوں سے بناتے ہیں تاکہ رات کے وقت کوئی بھی بھیڑ باہر نہ جائے اور نہ کسی جنگلی جانور کا شکار ہو۔ ہم ان بھیڑوں کی حفاظت کیلئے کتے بھی پالتے ہے جو ان بھیڑوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ہم سب تھکے ہارے چرواہے صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ جس وقت بھیڑوں کو چراگاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں اس وقت دھوپ بہت تیز ہو جاتی ہے جبکہ بھیڑ بکریاں اکثر گرمی کی وجہ سے جلدی تھک جاتی ہے۔ اور وہ سر جھکا کر اکٹھی کھڑی ہو جاتیں اور ہانپنے لگتی ہیں۔ وہ پیٹ بھر کر کھا بھی نہیں پاتیں جس کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو جاتی ہیں۔ہم چرواہوں کا روز کا معمول ہے کہ ہر شام جب ہم ان بھیڑ بکریوں کو واپس باڑے میں لاتے ہے تو تمام بھیڑوں کی گنتی شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے پاس سینکڑوں کے حساب سے بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں۔ ہم سب کی مال متاع یہ بھیڑ اور بکریاں ہے ان کو بیچ کر ہم اپنی روزی روٹی کھاتے ہیں۔ اصل میں ہم ہی لاوارث بلوچستان کے وارث لوگ ہیں جو توجہ چاہتے ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔