سیاسی شگوفے

سیاسی شگوفے
 سیاسی شگوفے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں ہونے والے انقلاب و آزادی مارچ اور دھرنوں سے آپ چاہے کتنے ہی نالاں کیوں نہ ہوں یہ بات تو آپ کو تسلیم کرنی ہی ہو گی کہ ملک میں ’تبدیلی‘ کی ہوائیں چل پڑی ہیں ، عوام کی ان کے حقوق سے آشنائی ہو گئی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ گو کہ ظلم کا یہ نظام دھڑام سے اب گرا کہ اب گرا۔انقلاب چہرے بدل بدل کر برپا ہواہی چاہتا ہے اور ایسا ہی کچھ منظر ملتان کی جیل میں سامنے آیا جہاں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے ایک ’عاشق‘ نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور قریبی عقوبت خانے میں فراق کی سیڑھی پر بسمل اپنی ’معشوق‘ کو بلا بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے یقیناً قید کے ایام میں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے خطابات سنے ہوں گے جس سے اس کے دل میں بھی ’انقلاب‘ نے کروٹ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انقلاب برپاکرنے کے لئے اس کو کوئی ’کنٹینر‘ دستیاب نہ تھا مگر پھر اس نے پانی کی ٹینکی کا سہارا لیا اور نعرہ انقلاب بلند کر دیاکیونکہ ’جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا و ہ لہو کیا ہو ‘۔ قائد انقلاب کی تقلید کرتے ہوئے شاید وہ ہاتھ میں ’کفن‘ بھی بلند کئے دیتا مگر افسوس کہ ایک رسی سے ہی کام چلانا پڑا۔ پھرجب ’مذاکراتی کمیٹی ‘نے مطالبہ پورا کیا تو جناب عاشق نے محبوبہ سے جو شکوہ جواب شکوہ شروع کیا تو معلوم پڑا کہ انہیں ’وصل‘ سے زیادہ’ وفا‘ مطلوب تھی کیونکہ محبوبہ عنقریب اس کے خلاف عدالت میں بیان دینے والی تھی۔
لیکن ’انقلاب تو پانی کی مانند ہے جو زیر زمین بہتا رہتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے اپنا راستہ بنا لیتا ہے ‘کے مصداق چند روز قبل ہی تو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کی مضبوط ترین ٹیم کو دبئی کے میدانوں میں دھول چٹا دی ہے۔ اس انقلاب کا سہرابھی یقینناً طاہر القادری کے سر ہی ہے جنہوں نے انقلاب کے ’بیرون ملک سفر ‘ کے دوران دبئی کرکٹ سٹیڈیم کے اوپر سے گزرتے ہوئے’انقلابی نظریں‘ اس گراؤنڈ کی پچ پر ڈالی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ جو ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز میں بری طرح ہار گئی تھی اس نے ہی ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ وہ کپتان جو آج تک ون ڈے کرکٹ میں سینچری تک نہیں بنا سکا اس نے ٹیسٹ کرکٹ میں بیک وقت تیز ترین ففٹی اور سینچری بنا ڈالی۔ اور جس یونس خان کو سلیکٹرز نے قابل سلیکشن ہی نہ سمجھا تھا جب اس نے بھی مسلسل سینچریاں بنا ڈالیں تو یہ وہ وقت تھا جب انقلاب اپنے ’نقطہ ابال‘پر تھا۔ یہ اس انقلاب کا ہی نتیجہ ہے کہ کپتانی کے خواب دیکھنے والے بہت سے کپتان بھی کہہ اٹھے ہیں کہ یہ’ کپتان ‘ ہی میرا کپتان ہے۔
ویسے انقلاب کا سفر یہیں نہیں رکا بلکہ اب تو ’تبدیلی‘ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور یہ بھی علامہ طاہر القادری کی بدولت ہی ممکن ہو سکا ہے کہ جنہوں نے ڈی چوک میں مقید اپنے انقلاب کو پورے ملک میں پھیلا دیا اور پھر امریکہ کے ’انقلابی سفر‘ پر روانہ ہو گئے ۔ نتیجتاً ’تبدیلی‘ میں بھی ’انقلاب ‘برپا ہوا ہے اور جناب قادری سے محض 20 دنوں کی دوری کے بعدہی عمران خان نواز شریف کی بات مان گئے ہیں اور 13 اگست کی رات کی جانے والی پیشکش کو ہی اپنا نیا مطالبہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ شیخ الاسلام کہا کرتے ہیں ’انقلاب یونہی نہیں آجایا کرتے‘ تبدیلی دھرنا تو جاری ہے اور ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ جو 14اگست کو نہ ہو سکا وہ 30نومبر کو ہو ہی جائے ورنہ نیا مطالبہ تو پیش کیا ہی جا چکا ہے اور پھر سننے میں آرہا ہے کہ اگرکہیں طاہر القادری کی طبیعت اچانک خراب نہ ہو گئی تو وہ واپس ضرور آئیں گے۔

مزید :

بلاگ -