امام کعبہ کا تاریخی خطبہ جس نے آنکھیں نم کردیں

امام کعبہ کا تاریخی خطبہ جس نے آنکھیں نم کردیں
امام کعبہ کا تاریخی خطبہ جس نے آنکھیں نم کردیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امامِ کعبہ شیخ عبدالرحمن سدیس نے 3مارچ 2017کو پہلی مرتبہ مسجد نبوی شریف میں جمعہ کا خطبہ دیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔شیخ عبدالرحمن سدیس پچھلے 34سالوں سے بیت اللہ شریف میں امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ان 34سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ آپ نے مسجد الحرام کی بجائے مسجدنبوی شریف میں خطبہ جمعہ دیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔ اسی طرح کا ایک اعزاز آپ کو گزشتہ سال حج کے موقع پر بھی حاصل ہوا ،جب سعودی عرب کے 73سالہ مفتی اعظم شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ آل شیخ نے بیماری کے باعث مسلسل35 سال تک خطبہ حج دینے کے بعد پہلی مرتبہ خطبہ حج دینے سے معذرت کی، تو امام کعبہ شیخ عبدالرحمن سدیس نے پہلی مرتبہ خطبہ حج دیا۔اس سے پہلے 12جمادی الاولیٰ 1435ھ کو آپ نے پہلی مرتبہ مسجد نبوی شریف میں عشاء کی نماز بھی پڑھائی اور نماز کے بعد مدینہ منورہ کے فضائل پر خطبہ بھی دیا۔اس کے علاوہ ہر اسلامی مہینے کے تقریبا پہلے منگل کو مسجد نبوی میں ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد کا درس دینے کے لیے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھی آتے ہیں۔شیخ عبدالرحمن سدیس نہ صرف حرم کعبہ کے سب سے بڑے اور پرانے امام ہیں بلکہ حرمین شریفین اور ائمہ حرمین شریفین کے نگران اعلیٰ بھی ہیں۔ائمہ حرمین شریفین میں سب سے زیادہ شہرت دنیا بھر میں آپ ہی کو حاصل ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آپ کااپنے مخصوص انداز میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا ہے۔اسی وجہ سے آپ گزشتہ 34 سالوں سے عالم کے مسلمانوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔عالم اسلام کا بچہ بچہ آپ کے نام اور آپ کے انداز تلاوت سے واقف ہے۔پاکستان کے بہت سے بازاروں،دکانوں اور مارکیٹوں میں آج بھی صبح صبح شیخ سدیس کی آواز میں تلاوت قرآن کریم لگائی جاتی ہے۔آپ نہ صرف سعودی عرب کی ٹاپ کی پانچ مؤثرین ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں ،بلکہ عالم اسلام میں بھی آپ کوبے انتہاء قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔

2مارچ 2017بروز جمعرات کو جب حرمین شریفین کے انتظامی امور کے ادارے کی طرف سے شیخ سدیس کے مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ دینے کے متعلق اعلان کیا گیا تو سعودی عرب میں اس خبر کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔بالخصوص اہلِ مدینہ منورہ کی خوشی اس خبر کے بعد دیدنی تھی۔چنانچہ اس بارجمعہ کے دن معمول سے ہٹ کر مسجد نبوی میں رش دیکھاگیا۔لوگ دوردراز سے شیخ سدیس کا خطبہ جمعہ سننے کے لیے آئے۔اپنے خطبہ جمعہ کے دوران آپ نے مدینہ منورہ کے فضائل اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ سے خصوصی محبت کو رقت آمیز اندازمیں بیان کیا،جس پر ہرآنکھ اشکبارہوئی۔آپ کا کہنا تھا کہ دنیا میں مدینہ طیبہ سے زیادہ کوئی مبارک جگہ نہیں،یہ وہ مبارک زمین ہے جس کے لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تڑپتے تھے۔یہی وہ مبارک شہر ہے جہاں سے اسلام پروان چڑھا اور پوری دنیا میں پھیلا۔مدینہ منورہ اسلام کا منارہ اورعالم اسلامی کا ایسا مرکز ہے جہاں سے عقیدہ توحید اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔یہی وہ مرکز ہے جہاں سے اسلام کی قیادت وسیادت نے دنیا میں اعتدال پسند مذہب اسلام کا علم بلند کیا۔یہیں سے امن وسلامتی،عدل وانصاف اور رواداری اور بھائی چارگی کی تہذیب نے اپنی نیو اٹھائی ،جس کی طرف قرآن نے ان الفاظ میں اشارہ کیا کہ "(اے نبی)آپ کو ہم نے دونوں جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاہے"۔شیخ سدیس نے اپنے اس تاریخی خطبہ میں مسجد نبوی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہاکہ یہی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ، اسلام کا مرکزِ اوّل ہونے کی سعادت بھی اسی مسجد کے حصے میں آئی۔اس مسجدمیں زمین کا ایسا مبارک ٹکڑا ہے جوجنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے۔چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ "میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان کا حصہ جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑاہے"(متفق علیہ)امام احمد کی روایت کے مطابق قیامت کے دن میرا منبر جنت کی نہروں میں سے ایک نہر پر ہوگا۔یہی وہ مسجد ہے جہاں کی ایک نمازایک ہزار یا ابن ماجہ کی روایت کے مطابق 50ہزار نمازوں کے برابر ہے۔مدینہ منورہ اور اہلِ مدینہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرم قراردیا ہے۔چنانچہ یہاں کسی قسم کا شروفساد مچانا،خون خرابہ کرنا،اسلحہ اٹھانا ممنوع ہے۔یہاں کی ہرچیز مامون ہے۔یہاں رہنے والے خوش نصیب اور مبارک لوگ ہیں۔ان کو دکھ تکلیف دینے والوں کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو بھی مدینہ کے رہنے والوں کے ساتھ مکر کرے گا وہ ایسا گھل جائے گا جیسا کہ پانی میں نمک گھل جاتا ہے (یعنی اس کا وجود باقی نہ رہے گا)۔ ( بخاری و مسلم)۔ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا کہ"مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہوسکتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔
اپنے خطبے کے دوران شیخ سدیس نے مدینہ منورہ آنے والے زائرین کو ادب واحترام،نرمی وخوش اخلاقی اور اہل مدینہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی نصیحت بھی کی۔اس دوران حرمین شریفین کی تاریخی توسیعات کا بھی ذکر کیا۔آپ کا کہناتھا کہ سعودی حکومت نے حرمین شریفین کی وسعت میں تاریخی کام کیا ہے جس پر سعودی حکومت داد کی مستحق ہے۔حرمین شریفین بالخصوص مسجد نبوی میں خدمت کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں اور دیگر عاملین کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور انہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کے ساتھ بہترین رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔مسلمانوں کو رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں کو باہمی طورپرمتحد ہونے کی ضرورت ہے۔شدت پسندی اور دہشت گردی کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق تھا،نہ ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو ہرحال میں اعتدال کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔خطبہ جمعہ کے آخر میں آپ نے رقت آمیز دعا بھی کی۔جس میں اسلام کی بالادستی اورعالم اسلام میں امن وسکون کے لیے دعاکی گئی۔اس دوران خصوصی طور پر شام،عراق،برماواراکان اور دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لیے بھی دعا مانگی گئی۔عالم اسلام کے حکمرانوں کوبھی آپ نے اپنی دعا میں یاد رکھا۔بعدازاں نماز جمعہ میں اپنے مخصوص انداز میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ کی تلاوت کی۔
دیکھا جائے تو شیخ عبدالرحمن سدیس کا یہ تاریخی خطبہ شیخ سدیس کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔شیخ سدیس کے اس اعزاز کی سب سے بڑی وجہ ان کا قرآن کریم سے محبت کرنا اور اس کی خدمت میں لگنا ہے۔یہ قرآن ہی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں شیخ سدیس کا نام بلند ہوا۔اسی قرآن کریم کی برکت ہی کی وجہ سے پچھلے 34سالوں سے آپ بیت اللہ شریف میں امامت وخطابت کی عظیم ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔یہ قران ہی ہے جس کے بارے خلیفہ راشد عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نقل کیا کہ "اللہ تعالی قرآن کے ذریعے بعض لوگوں کو بلند کرتاہے اور بعض دوسرے لوگوں کو (جو قرآن سے رو گردانی کرتے ہیں) پست کرتا ہے۔(مسلم)۔
علامہ اقبالؒ نے اسے یوں بیان کیاتھا کہ؛
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ ہم اپنے تعلق کو مضبوط کریں اوررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپناصحیح معنوں میں آئیڈیل بناکرآپ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔اسی سے اسلام کا غلبہ ہوا اوریہی ایک واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے امن وسکون کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی ہے۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مدینہ منورہ کی محبت،قرآن سے قلبی وفکری تعلق کے ساتھ اس کی خدمت کرنے اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی توفیق عطافرمائے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -