اگر آپ کے والدین زندہ ہیں تو ایک کام کیجئے
والدین کی قدر و قیمت ان کی زندگی میں کیوں نہیں ہوتی، اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ والدین کی ساری محنت اور قربانیاں ماضی کی ایک داستان ہوتی ہیں جو انسان کے کمزور حافظے میں اکثر محفوظ نہیں رہتیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ والدین بڑھاپے میں اکثر چڑچڑے ہوجاتے ہیں ۔ان کی باتیں تلخ اور ان کے مطالبات غیر معقول محسوس ہوتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اپنے بیوی بچے ہونے کی وجہ سے انسان کے مفادات انہی کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں اور بوڑھے والدین صرف ایک بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ اور ان جیسی دیگر وجوہات کی بنا پر انسا ن کو والدین سے اختلافات ہوجاتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو فراموش کر دیتا ہے ۔ اس کے پیسے کا بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پر خرچ کرے اور وہ والدین جنھوں نے اپنا سارا مال اولاد پر لٹادیا تھا، ان پر پیسے صرف کرنا اسے بوجھ لگتا ہے ۔ اس کی توانائی کا بہترین مصرف اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانا ہوتا ہے اور بوڑھے والدین کی ذمہ داری اٹھانا اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے ۔ بیوی بچوں کی خوشنودی اس کے ہر عمل کا مقصود ہوتی ہے ، مگر بوڑھے والدین کی خوشنودی اس کے لیے ایک بے مصرف شے بن جاتی ہے ۔ اپنے بچوں کو گھنٹوں گود میں اٹھا کر وہ نہیں تھکتا مگر بوڑھے والدین کے ہاتھ پاؤں اور جسم چند منٹ دبانے کے بعد اسے تھکن لاحق ہوجاتی ہے ۔ بیوی بچوں ، دوست احباب، کاروبار و ملازمت اور کھیل تفریح کو دینے کے لیے اس کے پاس ڈھیر سارا وقت ہوتا ہے ۔ مگر بوڑھے والدین کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرنا اسے وقت کا زیاں محسوس ہوتا ہے ۔ انسان یہ سب کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ والدین دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انسان پر جنت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔
اگر آپ کے والدین زندہ ہیں تو ان کی قدر کر لیجیے ۔ یہ جنت کا وہ دروازہ ہے جو ایک دفعہ بند ہو گیا تو پھر کبھی نہیں کھلے گا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔