وہ آئے ہمارے گھر میں
پاکستان میں سب سے زیادہتعلیمی پسماندگی بلوچستان میں ہے جسے کم کرنے کیلئے بلوچستان میں مسلسل چار سالوں سے تعلیمی ایمرجنسی لگی ہوئی ہے۔ اسی سلسلہ میں صدر پاکستان ممنون حسین نے کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے کانوکیشن اور گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کے لئے تشریف لائے۔ بلوچستان یونیورسٹی تمام تعلیمی اداروں کی ماں بھی کہلاتی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی واحد یونیورسٹی ہے جو قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ کے خاتمے پر 1970ء میں قائم کی گئی تھی۔
صدر مملکت ممنون حسین نے بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان یونیورسٹی کے کسی بھی کانووکیشن میں شرکت کیلئے تشریف لائے ۔ ان کے اس دورہ کے دوررس نتائج برآمد ہیں ۔انکا بلوچوں کے گھر آنا کسی نعمت سے کم نہیں ۔انہوں نے بذریعہ سڑک گورنر ہاؤس سے بلوچستان یونیورسٹی تک سفر طے کیا جہاں انہوں نے نئے تعمیر ہونیوالے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ یونیورسٹی کے چودہویں کانووکیشن میں تین سو سے زائد مختلف طلبہ اور طالبات کو ڈگریاں دیں جن میں پی ایچ ڈی، ایم فل ،پوسٹ گریجویٹ اور گریجویٹ طلباء و طالبات شامل تھے۔ ڈگریاں تقسیم کرنے کے بعد صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ صوبائی حکومت بلوچستان میں مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ خاص کر تعلیم کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے ۔نئے تکنیکی ،علمی اداروں کے قیام کو عملی جامہ پہنا یا جارہا ہے اور تعلیم ہی ترقی کا واحد راستہ ہے کہ بلوچستان کے ان بیٹوں اور بیٹیوں سے مخاطب ہوں جو جفاکش ہیں ، مجھے فخر ہے کہ یہ صوبہ روایتوں، صلاحیتوں اور جرأت کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا ایک بار پھر ہماری طرف دیکھ رہی ہے جسکی وجہ بلوچستان کا تاریخی کردار ہے ۔ بلوچستان کے نوجوان ایسا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں کہ ملک اور دنیا کے لوگ انہیں فخر سے دیکھیں گے۔ نوجوان ، قومی سلامتی اور حالات حاضرہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور عوامی خدمت کے لیے ہر وقت تیار ہیں جامعہ بلوچستان کو امن و امان نے بہت متا ثر کیا ہے ۔یہاں اساتذہ اور طلباء کو نشانہ بنایا گیا ہے ،بلوچستان میں قتل و غارت گری کے اثرات اس یونیورسٹی پر بھی پڑے لیکن اب حا لات میں بہتری واقع ہوئی ہے۔ گوادر کے بارے میں کہا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں تیز رفتارترقی ،معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں میں انقلابی تبدیلی کی پہلی نوید ہے ،دنیا آج اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں دوبارہ بلوچستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اب بلوچستان زمینی،فضا ئی اور بحری راستوں سے دنیا بھر سے منسلک ہونے جارہا ہے ۔اقتصادی راہداری منصوبے سے استفادہ کے لئے تعلیم ،ثقا فت ،سیاحت اور دوسرے شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر نا ہوگا۔قبال تحسین بات یہ ہے کہ ایوان صدر کے اخراجات کم کر کے گوادر میں نمل یونیورسٹی کا کیمپس بھی بنا یا جارہا ہے۔طلباء تحقیق ،مطا لعہ کو اپنا شعار بنائیں اور حصول علم کے دوران سیا ست سے لاتعلق رہیں۔ فارغ التحصیل طلباء صوبے اور ملک کی ترقی کے لئے اپنی علمی ،تحقیقی اور قائد انہ صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔
سچ تو یہی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہی اقوام ترقی یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کررہی ہیں جو تعلیمی میدان میں گرانقدر اقدامات کررہی ہیں۔صدر مملکت کے اس دورہ سے یقینی طور پر بلوچستان میں تعلیم کا سیکٹر سرگرم ہوسکتا ہے ۔اگر گاہے گاہے دوسری اہم شخصیات بھی بلوچستان میں تعلیم کا مورال بلند کرنے کے لئے یہاں آتے رہیں گے تو امید ہے بلوچستان بہت جلد سیدھی راہ پر چل نکلے گا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔