’’ اے لاکھو میرے جسم کو ٹھنڈا کر دے ٹھنڈا ‘‘بلوچستان کی ایک ایسی جگہ جہاں پہنچتے ہی لوگ یہ جملہ پکاراٹھتے ہیں کیونکہ ۔۔۔
بلوچستان کے دلکش نظاروں کو دیکھنے کیلئے ہم نے پیر لاکھو کا رخ کرنے کا ارادہ کیااور صبح چھ بج کر بیس منٹ پہ سب دوست میرے ہاں پہنچ گئے۔ ہم نے بائیک کے بریک اچھی طرح چیک کیئے اور تیل کی ٹینکی کوفل کروا دیا۔ شروع میں ہمارے سامنے ویران علاقے آئے جہاں پہ لوگ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے تھے ۔یہ علاقہ میرا اپنا ضلع جعفر آباد تھا۔ جیسے ہی ہم نے کھیر تھر کینال کو کراس کیا تو کچھ سر سبز علاقہ شروع ہوگیا مگر وہ بھی چند کلومیٹر تک۔ یہ علاقہ ضلع جھل مگسی میں واقع ہے۔ یہاں پہ ہم بائیکر نے رفتار میں کچھ تیزی دکھائی۔ لیکن تمام بائیکرز کے قافلے کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ کوئی آگے تو کوئی پیچھے تھا۔مگر سب کی رفتار 45 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہی محدود تھی۔
سوا گیارہ بجے کے قریب ہم باریجہ میں ایک ہوٹل پر تازہ دم ہونے اور چائے پینے کی غرض سے رکھے۔ یہ ہوٹل سی پیک روڈ کے ساتھ بنا ہواہے۔ اس وقت پہاڑی سلسلہ ہم سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پہ تھا۔ ابھی ہماری منزل صرف ایک گھنٹے کی دوری پہ تھی۔ سفر طویل اور قافلہ بائیکرز کا ہو تو راہ میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ بائیکرز نے پہاڑی سلسلہ شروع ہونے سے پہلے دوبارہ بائیکس کو مکمل چیک اپ کیا ۔بائیک کو چیک کرنے کیلئے ہماری ٹیم میں ایک مکینک بھی تھا جو بائیکس کی چھوٹی موٹی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کا ہنر بہت اچھی طرح جانتا تھا اور بائیک کی فٹنس کو بہترین اور تسلی بخش بنا دیتا تھا۔کوئی بھی تکنیکی خرابی پہاڑوں کی چڑھائی پہ کہیں بھی ہم سب کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔
اس وقت پہاڑوں کا نگر شروع ہوا توہماری بائیکس پہاڑوں پہ رینگنے لگیں۔ اونچے نیچے پہاڑ دیدہ زیب نظارے ہمارے گرد گھوم رہے تھے۔ دو سے تین فٹ کے راستے پہ بائیک کو کنٹرول میں رکھنا لازم و ملزوم تھا۔ اگر بائیک کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر بچنا محال ہو جائے گا۔ کم از کم ہم تین سو سے چار فٹ بلندی پہ بائیک چڑھائی کر رہے تھے ۔چڑھائی کے دوران سب کو اپنی جان کی فکر تھی۔ اگر ہم کو پہلے اتنے مشکل راستوں کا پتہ ہوتا تو کبھی ہم اس سفر پہ نہ نکلتے۔ کبھی ہم بائیکر پیچھے بیٹھے دوست کو اتارتے اور کبھی دوبار بٹھا لیتے۔ ہمارے کچھ بائیکرز تو ان پر پیچ چڑھائی کو ایسے پار کر رہے تھے جیسے وہ صدیوں سے ان پہاڑوں پہ بائیک چلا رہے ہوں۔ جیسے پہاڑوں کی اترائی آئی تو ہم نے بائیک کے بریک کو پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگ گئے ۔نیچے اترنے کے بعد ہمیں ہماری منزل نظر آگئی تو ہم نے خوشی سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا نعرہ فضا میں بلند کر دیا۔
آخر ہم سب بہ مشکل اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے ۔ہمارے سامنے لاکھو پیر کا مزار تھا اور ساتھ میں پتھروں سے بنائی ہو خوبصورت مسجد ۔ سامنے آب شفا جو پہاڑوں کو چیر کر نکلتا تھا۔ یہ مسجد اور پیر لاکھو کا مزار کب بنایا گیا یہ کوئی نہیں جانتا ۔اس دیدہ زیب اور آب شفا پہ ایک تحریر بھی نہ لکھی گئی تھی جو افسوسناک عمل ہے ۔جس روز سی پیک مکمل ہوا اس روز اس جگہ کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی کیونکہ یہ جگہ سی پیک روڈ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہیں۔
ہمارے چاروں طرف وادی میں پہاڑوں کی اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ اس جگہ پہ نہ تو کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ ہاں البتہ پیر لاکھو کے مزار کے سامنے بہت سی خوبصورت گھنٹیاں بندھی ہوئیں نظر آئیں جو ویرانے میں بج کر سناٹا توڑتی تھیںَ۔گھنٹیوں کے ساتھ کچھ تعویذبھی بندھے ہوئے تھے۔ ان سے پتا لگ رہا تھا کہ لوگ مرادیں لیکر پیر لاکھو پہ آتے ہیں ۔ ہم نے درگاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ان گھنٹیوں کو بجایا اور پھر درگاہ کے اندر داخل ہو گئے۔ درگاہ کے اندر ایک جھولا لٹک رہا تھا۔ ہم نے اس جھولے کو دیکھا اور پھراس پر جھولنے لگا۔
بلوچستان کے ضلع جھل مگسی سے صرف بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پیر لاکھا کو یہاں کے باسی "ٹھار لاکھا ٹھار" کے نام سے بھی جانتے ہیں ۔ "ٹھار لاکھا ٹھار" سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’ اے لاکھو میرے جسم کو ٹھنڈا کر دے ٹھنڈا ‘‘ اور یہ پانی نہاتے ہوئے جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے جسے مقامی لوگ آب شفا بھی کہتے ہیں ۔ اس وقت ہم نے پہاڑوں کی جانب نظریں گھمائی تو دور پہاڑوں کے اوپر کچھ بکریاں چرتی نظر آئیں جو ایک چیونٹی جتنی ہمیں دیکھائی دے رہی تھیں۔ ہم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔آب شفا میں کود پڑے اور نہانے لگے ۔سب دوست بلند آواز میں بول رہے تھے ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ان آوازوں میں ایک آواز ہماری بھی تھی ۔کچھ دوست نہاتے ہوئے تھک گئے تو انہوں نے کھانے کا سامان کھولا ۔دیگچی نکالی اور کھانا پکانے لگے۔ جبکہ میں نے اپنی جیب سے کچھ ٹافیاں نکالیں اور سب کو دینے لگا۔
سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں لوگ اپنی خارش سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اس جگہ پہ آتے ہیں۔ یہ آب شفا جلد کی بیماریوں کا مکمل خاتمہ کردیتی ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ دنیا میں کسی بھی قسم کی خارش کی بیماری ہو اس پانی سے نہاتے ہوئے مریض یہ الفاظ بولتا ہے ’’ٹھار لاکھا ٹھار‘‘ پھر اس کے جسم پہ موجود خارش اور الرجی بالکل ٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس پانی میں کچھ معدنیات یا کچھ کیمیکل پہاڑوں سے ملا ہوا آتا ہے جو جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مگر آج تک اس پانی کا ٹیسٹ بھی کسی لیب میں نہیں کروایا گیا۔ آخر اس پانی میں کیا موجود ہے جس سے بدنکو ٹھنڈک پہنچتی ہیں۔۔
ہم سب دوستوں نے مل کر کھانا کھایا اور جمعہ کی نماز ادا کی ۔یہ مسجد سیکنڑوں سال پرانی ہے، مسجد میں نماز ادا کرتے یہ محسوس ہو رہا تھاکہ ہم صدیوں بعد اس مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ مسجد کے اندر ہوا خوشگوار تھی۔
دو گھنٹے کے طویل آرام کے بعد ہم سب نے واپسی کا راستہ اپنایا اور پہاڑوں کو خدا حافظ کہا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔