شام میں خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی!

شام میں خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی!
شام میں خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے چھ سالوں  سے شام میں قیامت برپا ہے۔ان چھ سالوں میں چھ لاکھ سے زائد معصوم اور نہتے شہری مارے گئے ،لاکھوں لوگ معذورہوئےاور لاکھوں لوگ گھرسے بے گھر ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ شام میں دنیاکی بڑی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے  کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ان میں سے ہرکسی  کی خواہش ہے کہ خانہ جنگی کی یہ آگ  بڑھتی رہی،تاکہ اسلحہ کے بیوپار اپنا اسلحہ بیچتے رہیں اور دوسروں کے وسائل لوٹنےوالے  جی بھر کے اپنی آرزو پوری کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت  عالمی امن کے دعویدار اب تک  اس خانہ جنگی کو ختم کروانے  کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔بلکہ جو کوئی بھی اس جنگ کو رکوانے کے لیے کوشش کرتاہے،عالمی طاقتوں میں سے کوئی نہ کوئی آگےبڑھ کر اس کے ہاتھ  باندھ دیتاہے۔

اس کا اندازہ پانچ دسمبر2016 کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد سےباآسانی لگایاجاسکتاہے۔مصر ،نیوزی لینڈ اور اسپین کی  طرف سے حلب میں جاری  وحشیانہ بمباری کو عارضی طور پر روکنے کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی۔سلامتی کونسل کے 11ارکان نےاگرچہ اس قرارداد کی حمایت کی لیکن روس اور چین نے مل کر اس قرادادکو ویٹو کردیا۔شامی خانہ جنگی  کے حوالے سے  روس چھ اور چین پانچ مرتبہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔اس سے بخوبی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ عالمی طاقتیں  شامی خانہ جنگی  کی آگ بڑھکانے میں  کتنی دلچسپی رکھتی ہیں۔امریکا اور دیگر یورپی ممالک بظاہر بشار کے اتحادی روس اور ایران پر زور دے رہے ہیں  کہ وہ انسانیت کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم سے باز آجائیں،لیکن پس پردہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے شام اور عراق میں انسانیت کے خلاف تاریخ کے بدترین مظالم کی بنیاد رکھی۔نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں  شام،عراق،لیبیا،یمن اور دیگر عرب ممالک میں جاری خانہ جنگی پرایک طویل سٹوری شائع  کی ہے۔جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ سولہ مئی 1916ء میں کیے جانے والے سائیکس پیکو نامی خفیہ معاہد ے، 2003 میں امریکہ  کا عراق پر حملہ ،عرب بہار اور داعش ایسے دہشت گرد وں  کو مشرق وسطیٰ میں کھڑا کرنے کے پیچھے  صرف اور صرف ایک سوچ کارفرما ہے کہ کس طرح مسلم دنیا بالخصوص عرب دنیا کو تقسیم کرکے ان کے وسائل  پر قبضہ کیا جائے ۔اس سلسلے میں روس امریکا،برطانیہ،فرانس سمیت ساری عالمی طاقتیں  ایک پیج  پر ہیں۔اس سٹوری پران شاءاللہ تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے۔

بہرحال شامی خانہ جنگی میں چین اور روس کا ویٹو پاور کوبار بار استعمال  کرنا انسانیت کے خلاف جرائم  کو سپوٹ کرنا ہے۔سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک میں سب سے زیادہ ویٹوپاور چین روس اور امریکا استعمال کرتا ہے۔امریکا عموما اسرائیل کے لیے  ویٹو پاوراستعمال کرتاہے،جب کہ چین اور  روس نے پچھلے چھ سالوں میں  شامی خانہ جنگی رکوانے کے خلاف  چھ بار  ویٹو پاور  استعمال کی ہے۔مساوات اور انسانی حقوق  کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے منہ پر ویٹو پاور ایک کالک ہے۔جس کے ذریعے کتنی بار انسانی حقوق اور مساوات کو پاؤں تلے روندا گیا۔اس لیے عالمی طاقتوں  سے شامی خانہ جنگی کے حل کے لیے کوئی امید رکھنا بظاہرعبث ہے۔دوسری طرف شام  میں جاری بربریت کے خلاف عالم اسلام کی بے حسی  اور بے حمیتی بھی قابل مذمت ہے۔

جدیدقومی ریاستوں کے تصور نے مسلمان ملکوں  سے اسلامی اخوت اوربھائی چارگی  ایسے فلسفے کو یکسر ختم کرکے رکھ دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج  ہر مسلمان ملک محض اپنی ریاست اور مفاد کی فکرمیں مگن ہے۔اس مفاد میں  ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کے خلاف کسی حد تک بھی جاسکتاہے۔افغانستان،عراق،یمن،شام اور کویت وغیرہ کی جنگ  میں دنیا مسلمانوں کی اس نیچ حرکت کو دیکھ کر تمسخر اڑا چکی ہے۔وطنیت اور قومیت   کا یہ مرض پچھلے چھ سالوں سےعالم اسلام کوشامی مظلوموں  کی مددکرنے سے روکے ہوئے ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اسی مرض نے مسلمانوں کومغلوب  کروایاہے۔اسلام کا مدعا تو یہ ہے کہ مسلمان سارے کے سارے ایک قوم ہیں۔اور یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بقول مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، ایک مسلمان کی تکلیف سارے مسلمانوں کو تکلیف  میں مبتلا کردیتی ہے۔اس تکلیف کو دور  کرنے کے لیے فرمایا تھا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم  ہویا مظلوم۔ظالم کو ظلم سے روکو اور مظلوم   کوظلم سے بچاؤ۔لیکن افسوس عالم اسلام نے ان سب باتوں کو بھلادیا اور خود کو محض وطنیت اور قومیت  میں منحصر کرکے اپنے مظلوم بھائیوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔نتیجتا  استعمار کے خفیہ عزائم سے پورا عالم اسلام بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔

شامی خانہ جنگی کے حل کے لیے ترکی،سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک  کسی حدتک کوششیں کررہے ہیں۔لیکن مشترکہ طور پر عالم اسلام کی طرف سے  باہمی اتحاد اور مشاورت نہ ہونے کی وجہ سے اب تک یہ کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔اس لیے اگر عالم اسلام  مشترکہ  طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اختلافات کی بجائے متفقات کو سامنے رکھ کر عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جاری عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف جدوجہد کرے تو نہ صرف شامی،عراقی اور یمنی خانہ جنگی رک سکتی ہے،بلکہ  دیگر اسلامی ملکوں کی طرف  بڑھنے والے عالمی طاقتوں کے خفیہ ہاتھ بھی روکے جاسکتے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان،ترکی اور سعودی عرب کو مل کر جدوجہد کرنی چاہئے ۔اس وقت اسلامی دنیا  میں یہی تین ملک ہیں جو عالم  اسلام کو مشترکہ طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے لیڈ کرسکتے ہیں۔دنیا کے ساتھ ہر ملک بھلے اپنے اپنے مفادات کے  لیے تعلقات رکھے لیکن کسی بھی ملک کی طرف سے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف ہرمسلمان ملک  سفارتی  جنگ  ضرور لڑے۔فی الوقت شامی خانہ جنگی رکوانے کے لیے پاکستان چین ،ترکی روس اور سعودی عرب امریکا اور برطانیہ کےساتھ سفارتی  جنگ لڑسکتاہے ۔ظاہر ہے یہ ممالک اپنے مفادات کے لیے پاکستان ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات رکھ سکتے ہیں تو پھر پاکستان ترکی سعود ی عرب  کیوں ان ممالک کو شامی خانہ جنگی پر قائل نہیں کرسکتے؟۔چین پاکستان کا مضبوط حلیف ہے،سی پیک اور گوادر کے بعد روس بھی پاکستان کا محتاج بن گیا ہے،ایسے میں پاکستان شامی خانہ جنگی پر باربار ویٹو کرنے والے ان دوممالک سے اگر بات کرے تو مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔اس طرح دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوگا اور مظلوم مسلمانوں کی غم خواری اور مدد کا فریضہ بھی ادا ہوگا!

۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

مزید :

بلاگ -