پاکستان کے وہ پہلے قومی گیت جو قوم کی بیداری کا ساماں بنے
یہ 14اور 15اگست کی درمیانی شب تھی۔ دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور نظریاتی مسلم ریاست معرضِ وجود میں آنے والی تھی۔ امر تسر اور موناباؤ سے مہاجرین کی آمد جاری تھی جو اپنا سب کچھ لٹاکر اس ارضِ وطن پر قدم رکھنے والے تھے جس کے لئے وہ یہی سوچ رہے تھے کہ یہ نئی مملکت بطورِ مسجد وجود میں آرہی ہے اس لئے وہ سرحدِ پاکستان پر قدم رکھتے ہی جوتے اتاردیتے ہیں اور سجدہ شکر میں گرجاتے ہیں۔ ٹھیک بارہ بجتے ہی ریڈیو پاکستان لاہور سے اردو میں غلام مصطفی ہمدانی کی آواز گونجتی ہے’’ ہم ریڈیو پاکستان سے بول رہے ہیں‘‘۔جس پاکستانی سامعین نے یہ آواز سنی‘ اس کی آنکھیں چھلک گئیں کیونکہ کچھ لمحات قبل اس کی غلامانہ شناخت تھی۔ اب نصف شب وہ آزاد مسلم ریاست کا شہری بن چکا تھا۔ ہر طرف پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کے نعرے گونج رہے تھے۔
اسی اثناء میں ریڈیو پاکستان پشاور سے ایک قومی نغمہ اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی اور ساتھیوں کی آواز میں گونجتا ہے
پاکستان بنانے والو! پاکستان مبارک ہو
قومی شان بڑھانے والو! پاکستان مبارک ہو
گویا ریڈیو پاکستان پشاور کی جانب سے پاک فضاؤں میں بکھرنے والا حب الوطنی کا پہلا نغمہ تھا جسے احمد ندیم قاسمی نے تحریر کیا۔
ریڈیو لاہور میں صبح ہی سے آزادی کی نشریات کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ وہاں ریکارڈنگ کی سہولیات موجود نہ تھیں اس لئے تمام اناؤنسرز اور گلوکاروں کو براہِ راست اپنی آواز نذرِ سامعین کرنی تھیں۔ منور سلطانہ جو ایک سال قبل ہی فلم انڈسٹری کا حصہ بنی تھیں‘ اپنی آواز میں قومی نغمہ گاکر انہیں ارضِ وطن کو نذرانہ عقیدت پیش کرنا تھا۔ بلاشبہ وہ پاکستان کی پہلی قومی گلوکارہ تھیں جنہوں نے 1946ء میں یعنی پاکستان بننے سے ایک سال قبل دو قومی نغمات جو دراصل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین تھے‘ ریکارڈ کروائے تھے‘ جن کے گراموفون ریکارڈ ہز ماسٹر وائس نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جاری کئے اور ان کی حاصل شدہ رقم مسلم لیگ کے فنڈ میں شامل ہوئی۔ وہ دو نغمات ترکی میں پاکستان کے پہلے سفیر جناب میاں بشیر احمد کے لکھے ہوئے تھے‘ جنہیں قادر فریدی نے کمپوز کیا۔ نغمات کے بول یہ تھے:
’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناح ‘‘
اور
’’ملت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح ‘‘
منور سلطانہ ریڈیو پاکستان لاہور پر اپنا فریضہ انجام دینے کے لئے تیار تھیں۔ ہنگامے عروج پر تھے مگر ان کے والد انہیں ریڈیو لاہور خود چھوڑ کر آئے تھے۔ رات ساڑھے بارہ بجے ان کی آواز میں نغمہ نشر ہوا تو ہر پاکستانی کا دل بھر آیا اور سب نے اس نغمہ کو اپنے دل کی آواز اور نئی مملکت کے ساتھ اپنے عزم کا اظہار سمجھا،
’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
اس جھنڈے پر اب قوم کی لاج ہے
اس جھنڈے پہ سب کی نظر آج ہے
جان سے کیوں نہ ہم کو یہ پیارا رہے ‘‘
یہ نغمہ شوکت تھانوی نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی قادر فریدی نے ترتیب دی تھی۔ یہ قومی نغمہ جو سبز ہلالی پرچم کا ترجمان تھا‘ ایک عرصہ تک لاہور ریلوے سٹیشن پر گرامو فون میں بجتا رہا جہاں مہاجرین امر تسر سے آرہے تھے۔ اس نغمے کا کوئی حصہ آج بھی نشر ہوتا ہے تونسلِ نوکے افراد بھی دل سے سننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اسی رات ریڈیو لاہور سے استاد مبارک علی اور استاد فتح علی خان نے علامہ محمداقبال کی نظم ساقی نامہ کے کچھ حصے قوالی کے انداز میں سنائے۔
قومی نغمات ہماری موسیقی کی ثقافت کا ایک اہم حصہ اور تہذیبی ورثہ ہے جن میں وطنِ عزیز سے محبت کا اظہار کبھی یہاں کی سرزمین ‘کبھی پرچم،کبھی بانیانِ پاکستان تو کبھی میدان کا رزار کے مجاہدوں کو خراجِ عقیدت کے انداز میں نظر آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف شعبوں اور اداروں کے حوصلے بلند کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی ملوں اور کارخانوں میں کام کرتے کاریگروں ،مزدوروں اور کھیتوں میں کام کرتے دہقانوں کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدانوں میں سبز پرچم کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کے لئے بھی قومی نغمات پیش ہوتے رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے شاعروں اور مطربوں نے قومی نغمات کو اتنی اہمیت دی کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ قومی نغمات پاکستان ہی میں گونجے ہیں۔
پاکستانی قومی نغمات کا سفر جو منور سلطانہ نے شروع کیا تھا‘ آج تک جاری وساری ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ابتدائی قومی نغمات گاکر عوام میں جذبہ حب الوطنی کو فروغ دیا اور دس سے زائد نغماتِ وطن گائے جن میں چند مشہور قومی نغمات یہ ہیں:
اللہ اللہ حوصلہ اے قائدِ اعظم تیرا ( شاعر: فیاض ہاشمی)
سورج پہ لکھا ہے پاکستان چاند پہ لکھا ہے پاکستان ( شاعر:میاں بشیر احمد)
اپنے دیس میں اپنا راج ( شاعر :فیاض ہاشمی)
کلامِ اقبال جو قومی وملّی شاعری کے سبب ہمارے قومی گیتوں کی ایک اہم جہت ہے‘ اس میں بھی منور سلطانہ نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے بچوں کے ہمراہ مشہور نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ریڈیو لاہور سے 1952ء میں ریکارڈ کروائی۔ اس کے علاوہ دو مشہور کلامِ اقبال
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارہ
اس دشت سے بہتر ہے دلی نہ بخارہ
اور
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح وشام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
بھی منور سلطانہ ہی نے پہلی بار گیت کے انداز میں ریکارڈ کروائے ورنہ اس سے قبل کلامِ اقبال قوالی کے انداز میں پڑھا جاتا تھا جس کو استاد فتح علی، استاد مبارک علی، استاد سنتو خان اور استاد معشوق علی پڑھنے میں ملکہ رکھتے تھے۔
پاکستانی قومی نغمات کا سفر تحریکِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جب مسلمانوں کو اپنی منزل نظر آئی تو انہوں نے نغمات پاکستان تخلیق کرنا شروع کردیئے تھے۔ ان میں میاں بشیر احمد، مولانا ظفر علی خان، اصغر سودائی ،کیف بنارسی اور رئیس امروہوی قابل ذکر ہیں۔ اس سے قبل اردو شاعری میں قومی شاعری کا آغاز تو علامہ شبلی نعمانی نے ہی کردیا تھا جس کی بنیاد پر مولانا محمد علی جوہر ، علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ محمد اقبال جیسے جید شعراء ملت نے مستحکم عمارت تعمیر کی مگر سازو آواز کے ساتھ قومی نغمات 1945ء کے بعد ہی شروع ہوئے جس کی وجہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران بننے والے جنگی ترانے تھے جنہیں ریڈیو سے بار بار نشر کیا جاتا۔ ملکہ پکھراج ، خورشید بیگم مرزا، نورجہاں، غلام دستگیر ، ایمی بائی اور فریدی نے نغمات کو پرجوش انداز میں گایا۔ ان میں سے کچھ مشہور نغمات یہ تھے :
میرے دیس کے نوجواں جارہے ہیں (ملکہ پکھراج)
ساڈا جھنڈا اے ساڈا ایمان (نورجہاں)
اٹھ شیر جواناں ، اٹھ شیر جواناں(غلام دستگیر)
گویا یہ ہمارے قومی و عسکری نغمات کے ابتدائی نقوش تھے۔
قیامِ پاکستان سے قبل باضابطہ قومی نغمات کا سلسلہ تحریکِ پاکستان کے دوران لکھی جانے والی انقلابی نظموں، قائداعظم کو خراج تحسین اور دیگر قومی نظموں سے ہوتا ہے اس ضمن میں ایک اور گلوکار‘ جنہیں پہلا مرد قومی گلوکار کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ، غلام حیدر تھے جن کے کچھ نغمے ریڈیو پاکستان پشاور سے نشر ہوئے اور ان کے گراموفون ریکارڈ بھی بنے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے یہ نغمات ریکارڈ کروائے:
وحدت کا ترانہ شوق سے گا۔۔۔کثرت سے نہ ڈر تیرا ہے خدا
(شاعر :مولانا ظفر علی خان )
اٹھایا مسلمانوں نے مسلم لیگ کا پرچم
لہرایا پھر مسلمانوں نے مسلم لیگ کا پرچم
(شاعر :مولانا ظفر علی خان )
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔!!!
(شاعر: اصغر سودائی)
بٹ کے رہے گا ہندوستان۔۔۔لے کے رہیں گے پاکستان
(شاعر:میاں بشیر احمد)
ریڈیو پاکستان لاہور نے قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں کئی قومی نغمات ریکارڈ کروائے مگر ان کی تعداد 1960ء تک 50سے زائد نہ تھی۔ ریڈیو لاہور سے ایک اور گلوکار ہ ستارہ بیگم نے دو قومی نغمات پہلے یومِ آزادی کے موقع پر ریکارڈ کروائے جو 1950ء کے عشرے تک ہر سال یومِ آزادی میں نشر ہوئے۔ ان کے بول کچھ اس طرح تھے ،
مبارک آزادی مبارک آزادی۔۔۔اے پاکستانیو! لو مبارک بادی
اور
آئے جسے ہو دیکھنا جنت کا نظارہ۔۔۔فردوس کا نقشہ ہے پاکستان ہمارا
پاکستان فلم اندسٹری کے ایک ابتدائی گلوکار اور ریڈیو لاہور کے غزل گائیک علی بخش ظہور نے بھی ریڈیو سے 1951 میں ایک قومی نغمہ ’’زندہ باد زندہ باد۔۔۔پاکستان زندہ باد‘‘ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔
دلشاد بیگم جو بھارت سے ہجرت کرکے آئی تھیں‘ انہوں نے بھی اپنی آواز میں نذرانہ ء وطن پیش کرتے ہوئے ریڈیو لاہور سے یہ قومی نغمات گائے ،
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے (غلام قادر فریدی کے ہمراہ)
السلام السلام اے قائداعظم
پاکستان کا گلشن آباد ہوا‘ دلشاد ہوا
میرا دیس میری تقدیر‘ اپنے دیس کی میں تصویر
یہی ہماری ہے انجمن
تو سلامت رہے ، تو سلامت رہے (قادر فریدی کے ہمراہ)
اقبال بیگم لاہوری جو ریڈیو لاہور کی ایک مشہور گلوکارہ تھیں، وہ بھی قومی نغمات کے ذریعہ اپنے جذبہ حب الوطنی کو ثابت کرتے ہوئے یہ قومی گیت پیش کرتی ہیں:
چن تارہ پاکستان دا۔۔۔رہے جھنڈا اونچا مان دا
بھارت سے ہجرت کرکے آنے والی مشہور مغنیہ بیگم نسیم اختر جنہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری میں گنتی ہی کے گانے گائے تھے‘ اس کے باوجود وہ قومی نغمات گاکر پاکستان کو اپنی شناخت بنانے میں فخر محسوس کرتے ہوئے یہ نغمے پاک فضاؤں میں بکھیرتی ہیں،
تو مردِ مجاہد ہے تجھے مان گئے ( شاعر :فیاض ہاشمی،موسیقار : ماسٹر عنایت علی ناتھ )
1948ء میں جب جموّں اور کشمیر میں میدانِ کارزار گرم ہوا تو پہلی بار پاکستان کے لئے جنگی ترانے نشر ہوئے۔ ان میں مٹکے و الے قوال نے ہجرت اور دشمن کے خلاف محاذ کے تناظر میں ایک خوبصورت قومی نغمہ اپنے روایتی انداز میں گایا جس کے بول کچھ اس طرح تھے،
اٹھ گوری برتن بھاڑے باندھ
بھاگ آگیو پاکستان۔۔۔گوری آگیو پاکستان
یہ نغمہ 1965ء کی جنگ میں بھی نشر ہوتا رہا۔اس کے علاوہ زینت بیگم اور مبارک بیگم کا نغمہ ء کشمیرجو تقسیم سے قبل بنا تھا‘ ریڈیو لاہور ، ڈھاکا اور پشاور سے نشر ہوتا رہا، اسے کشمیر سے اظہارِ یک جہتی کا پہلا نغمہ بھی کہا جاسکتا ہے جس کے بول کچھ یوں تھے،
جنت ہے کشمیر ہمارا، کشمیر ہمارا
قدرت کی گودی میں کھیلے ہر نظارہ
نظارہ پیارا، پیارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ قادر فریدی کا نغمہ ’’تم حق پہ ہو آواز دو ، آواز دو ‘‘بھی افواجِ پاکستان کا حوصلہ بڑھا تا رہا۔
1950ء کی دہائی میں منور سلطانہ ، قادر فریدی اور دھنی رام نے کسی فلم کے لئے ایک عسکری نغمہ ریکارڈ کروایا تھا وہ فلم تو ریلیز نہ ہوسکی لیکن یہ نغمہ ریڈیو لاہور سے نشر ہوتا رہا بلکہ 1965ء کی جنگ میں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان مرحوم کی یادگار تقریر کے فوراً بعد بھی نشر ہوا۔ نغمہ کی موسیقی قادر فریدی نے جبکہ اشعار تنویر نقوی نے لکھے تھے‘ ترانہ کچھ اس طرح تھا۔
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
1954ء ہمارے قومی نغمات کی تاریخ کا ایک اہم ترین سال ہے جب پاکستان کا قومی ترانہ تیار ہوکر پہلی بار 13اگست کی شب ریڈیو پاکستان کے تمام اسٹیشنز سے نشر ہوا۔ اس کی تیاری کے لئے ایک خصوصی کمیٹی شہید ملت جناب لیاقت علی خان شہید نے بنائی تھی جس نے 720ترانوں میں سے ابو الاثر حفیظ جالندھری کا ترانہ منظور کیا۔ اس ترانے کی دھن احمدجی چھاگلا نے1949ء میں ترتیب دی جبکہ اس کے گلوکاروں میں احمد‘ رشدی، نسیمہ شاہین، زوار حسین، نہال عبداللہ، اختر وصی علی، کوکب جہاں ،رشیدہ بیگم ،شمیم بانو، غلام دستگیر ،انور ظہیر، نجمہ آراء اور اختر عباس شامل تھے۔
پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی گلوکار ان میں ایک نام عبدالشکور بیدل کا بھی ہے انہوں نے بھی ریڈیو پاکستان لاہور میں قومی نغمے ریکارڈ کروائے جن میں 11ستمبر 1948 کو قائداعظم کی وفات پر مرثیہ ’’ اے غریبوں کے قائداعظم سلام۔ الوداع! اے فاطمہ کے دید پرنم قائداعظم سلام‘‘ ہمارے قومی نغمات کی تاریخ میں ایک یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔
ریڈیو پاکستان پشاور پر محمد قاسم نامی ایک غیر معروف گلوکار نے دو ملّی کلام اقبال ’’یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ‘‘اور’’چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا‘‘ ریکارڈ کروائے جو قدیم انداز کے تھے۔ اس کے علاوہ عباس دین بھی پاکستانی موسیقی کے ایک ابتدائی گلوکار تھے جنہوں نے1950ء میں ’’ زمیں فردوس پاکستان کی ہوگی زمانہ میں‘‘ گایا جسے فیاض ہاشمی نے لکھا۔
پاکستانی قومی نغمات کی تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ مشہور بھارتی فلمی گلوکار اور غزل گائیک طلعت محمود پاکستان آئے تو انہوں نے لاہور ریڈیو میں پاکستان کے لئے ایک قومی نغمہ ’’آزاد مسلماں، آزاد مسلماں ‘‘ ریکارڈکروایا۔ وطن واپسی پر طلعت محمود کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت اور عوام دونوں کے احتجاج پر بھارتی فلمسازوں نے تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ فلموں کے لئے پسِ پردہ آواز دینی کم کردیں جس پر طلعت محمود غزل تک ہی محدود ہوگئے۔
قومی نغمات کے فروغ میں پاکستان فلم انڈسٹری نے بھی اہم کردار ادا کیا بلکہ 1970ء کے عشرے تک اکثر مشہور قومی نغمات دراصل فلموں ہی کا حصہ تھے۔ پاکستانی فلموں میں اب تک 150سے زائد قومی نغمات موجود ہیں جو دنیا بھر کی فلم انڈسٹریز میں نغماتِ وطن کے حوالے سے بھی ایک ریکارڈ ہے۔
1949ء میں پاکستان کی دوسری فلم شاہدہ جو ہدایتکار لقمان نے بنائی تھی‘ اس میں منور سلطانہ نے ہجرت کے تناظر میں ’’الوداع پیارے وطن الوداع‘‘گایا۔ گویا یہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا پہلا قومی نغمہ تھا چنانچہ یہ ناقابلِ تسخیر اعزاز بھی منور سلطانہ ہی کو حاصل ہوا۔ یہ گیت قتیل شفائی نے لکھا تھا جبکہ نغمے کی دھن ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی۔
فلم شرارے جو 1955ء میں ریلیز ہوئی اس میں بھی 3قومی گیت تھے جن کے بول کچھ اس طرح تھے ،
اوسفینہ ڈوبے نہ (پکھراج پپو اور عنایت حسین بھٹی)
او متوالے،ہمت والے (پکھراج پپو اور عنایت حسین بھٹی)
اے سب کے نگہباں (منور سلطانہ)
سیف الدین سیف کی پنجابی فلم ’’کرتار سنگھ ‘‘جو 1959ء میں ریلیز ہوئی‘ اس میں سلیم رضا اور عنایت حسین بھٹی کا ترانہ ’’اج مک گئی اے غماں والی شام‘‘ بھی مشہور قومی نغمات میں سے ایک ہے جس کی دھن غلام عباس چشتی نے بنائی۔ فلمساز چوہدری حسن الدین اور ہدایتکار رفیق سرحدی کی فلم ’’چنگیز خان‘‘جونسیم حجازی کے ناول ’’آخری چٹان‘‘سے ماخوذ تاتاریوں کی یورشوں پر ایک تاریخی فلم تھی،اس میں طفیل ہوشیار پوری کا تحریر کردہ جنگی ترانہ
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا۔۔۔اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر
بے حد مشہور ومقبول ہوا جو آج بھی سامعین کے جذبات کو گرما دیتا ہے۔ رشید عطرے کی موسیقی سے سجایہ جنگی ترانہ پاک فوج ملٹری بینڈ کا سرکاری ترانہ ہے۔ اس کے علاوہ فلم ’’سلطنت‘‘میں صوفی غلام مصطفی تبسم کا لکھا ہوا ترانہ
’’قدم بڑھاؤ ساتھیو!قدم بڑھاؤ
تم وطن کے شیر ہو‘ شیر ہو دلیر ہو ‘‘
بھی ہمارے یادگار جنگی ترانوں کا حصہ ہے جسے عنایت حسین بھٹی کے ساتھ آئرین پروین نے گایا۔ مذکورہ بالا دونوں نغمات جنگ ستمبر 65ء کے دوران ریڈیو سے نشر ہوتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ ترانے خاص اسی موقع کے لئے تیار کئے گئے ہوں۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی جذبہ ء حب الوطنی پر مبنی فلمساز شیخ لطیف اور ہدایتکار رفیق رضوی کی سپر ہٹ فلم ’’بیداری‘‘جو 1957ء میں ریلیز ہوئی، یادگار اور سدابہار قومی نغمات کے حوالے سے اہم ترین فلم ہے۔یہ نغمات فیاض ہاشمی نے لکھے جبکہ موسیقی استاد فتح علی خان نے ترتیب دی ،فلم کے قومی نغمات یہ تھے :
آؤ بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی (آواز:سلیم رضا اور ساتھی)
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان (آواز:منور سلطانہ اور ساتھی)
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے (آواز: سلیم رضا)
1965ء کی جنگ سے قبل پاکستانی سبز گیتوں کے زاویے اور جہتیں‘ پرچم‘ مٹی سے محبت، ارضِ وطن کے لئے دعائیہ کلمات اور قائدِاعظم کو خراجِ عقیدت پر مشتمل تھیں، مگر جنگ کے دوران نغماتِ وطن میں ہمارے فوجی جوانوں کے لازوال کارناموں کے باعث عسکری رنگ غالب آیا۔ اس کے بعد کھیتوں، کھلیانوں، ملوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کا رنگ دکھائی دیتا ہے ، جو صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے عہد تک رہا۔ ان کے دور میں ان گنت اور یادگار قومی نغمات بنے جن کے بغیر ہمارا کوئی بھی قومی تہوار پھیکا محسوس ہوتا ہے۔ جدید اور پاپ میوزک میں بھی قومی نغمات کا سلسلہ جاری ہے مگر اب شاعری اور آواز سے زیادہ توجہ موسیقی اور ترتیب پہ دی جاتی ہے۔ اکثر چھوٹے چھوٹے فقروں میں وطن سے محبت اور وطن عزیز کی تعمیر میں لگن کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے۔ تاہم 1960ء تک ہمارے قومی نغمات ہمارا ایک ثقافتی اور عسکری ورثہ ہیں جو فی الحال کسی بھی قومی ادارے کے پاس محفوظ نہیں، راقم الحروف نے ملکِ پاکستان کے گوشے گوشے سے انہیں جمع کرکے اپنا آرکائیو ترتیب دیا ہے تاکہ ہمارا یہ ورثہ محفوظ ہوسکے۔(یہ مضمون فوج کے ترجمان میگزین ماہنامہ ہلال سے لیا گیا ہے )
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔