پاکستان کی وہ یونیورسٹی جس کے وائس چانسلر نے منشیات کے استعمال پر بے بسی کا اظہار کردیا، ایسا انکشاف کردیا کہ سننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے

پاکستان کی وہ یونیورسٹی جس کے وائس چانسلر نے منشیات کے استعمال پر بے بسی کا ...
پاکستان کی وہ یونیورسٹی جس کے وائس چانسلر نے منشیات کے استعمال پر بے بسی کا اظہار کردیا، ایسا انکشاف کردیا کہ سننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اُڑتے طالب علم

تحریر: سید امجد حسین بخاری

گذشتہ دنوں ایک انڈین پنجابی فلم ” اُڑتا پنجاب “ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فلم میں بھارتی پنجاب میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کی گئی تھی۔ فلم کا مرکزی خیال نوجوانوں میں نشے کو فروغ دینے والے عناصر کی نشاندہی کرنا تھا۔میں اس فلم کے حصار سے نکل نہیں پایا تھا کہ قومی اسمبلی میں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں طلبہ وطالبات میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بازگشت سنائی دی۔ وقتی طور پر اسلام آباد کی انتظامیہ کو تنبیہ کی گئی مگر اس کے بعد اس پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

میں تعلیمی اداروں کے حوالے سے خبروں کو کافی غور سے دیکھتا ہوں ، شاید قوم کے نوجوانوں سے مجھے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ ہیں۔ اسلام آباد میں نشے کے عادی نوجوانوں اور ان تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی تو درکنار ایک دن کے بعد میڈیا اور اسمبلی دونوں کی فائلوں سے جیسے یہ خبر غائب ہی ہوگئی ہو،کسی نے نام لیا اور نہ ہی انتظامیہ نے کارروائی کی، اب گذشتہ پیر کو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کا ایک طالب علم ہیروئن کی زیادہ مقدار لینے کی وجہ سے دم توڑ گیا۔مرحوم فنانس اور اکاﺅنٹنگ میں پانچویں سمسٹر کا طالب علم تھا ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم مکمل ہونے کے بعد طالب علم کی لاش ورثاءکے حوالے کر دی گئی ہے اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ نے منشیات کو شاہ میر کی موت کی بنیاد بنا کر میڈیا پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تاہم ابھی تک اس کی موت کی وجہ کا تعین نہیں ہو سکا۔ ”یونیورسٹی انتظامیہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ منشیات نہ صرف تعلیمی اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ معاشرے کیلئے بھی تباہ کن ہے “۔ انتظامیہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے اور کیمپس میں منشیات کی فراہمی کو روکنے کیلئے مسلسل نگرانی کا نظام موجود ہے اور اس پر سخت پالیسی اپنائی گئی ہے۔انتظامیہ نے کیمپس میں منشیات کی روک تھام کے حوالے سے اپنی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ کسی بھی کوتاہی کا پتہ چلنے کی صورت میں اس پر قواعد کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ چند ماہ قبل اسی یونیورسٹی سے 140گرام ہیروئن قبضے میں لی گئی تھی اسی دوران سینیٹررحمان ملک کی زیرصدارت سینیٹ کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے انکشاف کیاہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبانشہ کھلے عام کرتے ہیں۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے کہاکہ چاہے مجھے کوئی بھی سزادی جائے لیکن میں اس بات پرقائم ہوں کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں کھلے عام ہیروئن ،شراب اورچرس کی گولیاں فروخت ہورہی ہیں۔گذشتہ عرصے ایک غیر سرکاری تنظیم نے انکشاف کیا تھا کہ ملک میں اس وقت ساٹھ فیصد نوجوان مرد و خواتین نشے میں مبتلا ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں کے باہر نشہ آور اشیاءبا آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔ پولیس ، یونیورسٹی انتظامیہ سبھی اس پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔تاہم پولیس کی جانب سے یہ انکشافات بھی کئے جا رہے ہیں کہ نشے کے عادی طلبہ وطالبات کو اگر گرفتار کیا جائے تو چند منٹوں میں کسی”بڑے“ کی فون کال کے بعد انہیں چھوڑدیا جاتا ہے، اسی آزادی اور بے خوفی کے باعث تعلیمی ادارے اور ان کے ہاسٹلز منشیات فروشوں کے لئے بہترین ٹارگٹ اور محفوظ پناہ گاہیں تصور کئے جاتے ہیں۔

اگر منشیات فروشوں اور منشیات کے عادی افراد کو یوں ہی ڈھیل دی جاتی رہی، تو ایک دن اس قوم کو ہونہار نسل ملنے کی بجائے” جہاز“ ہی ملیں گے۔ شاید میرا یہ لفظ ادب کے تقاضوں اور صحافتی اخلاقیات سے گرا ہوا محسوس ہو رہا ہو لیکن یقین جانئے قوم کے نوجوانوں کے حالت اور حکام کی مجرمانہ خاموشی پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ منشیات کے عادی افراد زیادہ تر بڑے اور ایلیٹ کلاس کے تعلیمی اداروں میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں امیروں کی بگڑی ہوئی اولادیں صرف سکون کی تلاش میں زندگیاں برباد کردیتی ہیں اور والدین لاڈلے بچوں کو بیجا پیار اور لاڈ میں بگاڑ رہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نشے میں دھت ان اُڑتے ہوئے طالب علموں کو لگام دے کر قوم کا مستقبل محفوظ بنایا جائے اور ان عوامل پر غور کیا جائے جن کی بنیاد پر نوجوان نسل نشے کی لت میں پڑگئی ہے۔

امجد حسین بخاری صحافت میں ایم فل کے طالبعلم ہیں اور مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں ، کشمیر سے تعلق ہونے کے باعث ان کی مسئلہ کشمیر پر گہری نظر ہے ۔ ان سے ٹوئٹر @bukharian_eagle پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -