مزار لعل کے لال خون کا قرض

مزار لعل کے لال خون کا قرض
مزار لعل کے لال خون کا قرض

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے آباؤ اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد محترم شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔شیخ عثمان مروندی شہباز قلندر 1196 ء میں افغانستان سے پاکستان آئے اور انہوں نے اس دوران سہیون میں قیام کیا اور یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ شیخ عثمان مروندی صاحب جذب و وجدان تھے اور انہوں نے سندھ میں قیام کے ساتھ ہی سندھ کی عوام کے درمیان محبت ، امن ، آشتی ، مل جل کر ر ہنے اور صلح کل کا پیغام عام کیا۔
ان کا عرس مبارک ہر سال شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سیہون شریف میں ہوتاہے 249 سندھ کی تاریخ میں بالعموم اور پاک و ہند کی تاریخ میں بالخصوص عرس لال شہباز قلندر بہت بڑی ثقافتی 249 مذہبی اور سماجی سرگرمی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال شریک ہوتے ہیں 249 یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے۔
شیخ عثمان مروندی لعل شہباز قلندر کو سندھ میں صوفیانہ شاعری 249 صوفی کلچر اور سندھ کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنے والے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھی کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کرپایا۔
شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کا نام لعل شہباز قلندر پڑگیا۔ صوفی کلچر پاک و ہند کے اندربقائے باہمی کا ایک ایسا معاہدہ عمرانی ہے جس نے پاک و ہند کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ بنا ہوا ہے۔
محبت اور امن کے پرچار لعل شہباز قلندر کا مزار بھی لہولہا ن کر دیا گیا ۔ امزار پر بہنے والے لال خون کا قرض کون ادا کرے گا۔ صوبہ سندھ میں سیہون شریف میں صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر جمعرات کی شام خودکش بم دھماکا حکمرانوں کو پیغام دیتا ہے کہ جمہوریت اور سیاسی طاقت سے دلوں کو تسخیر نہیں کیا جاسکتا۔
دریائے سندھ کے کنارے آباد سیہون شریف ضلع جامشورو میں واقع ہے اور یہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا انتخابی حلقہ بھی ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کا قدیم شہر ہے جو ضلع جامشورو میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے۔ یہ شہر صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزارکی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔
بقو ل فیض احمد فیض
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
اس افسوسناک واقعے کے بعد فوری طور امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئیں اور زخمیوں کو مقامی اسپتالوں کے علاوہ نزدیک واقع شہر جامشورو میں لیاقت میڈیکل کمپلیکس میں بھی منتقل کیا جا تارہا ہے۔ قریب کے تمام علاقوں کے اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔ اور صوبے کے دیگر شہروں سے ایمبولینسز کو سیہون روانہ کر دیا گیا ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ زخمیوں کے لیے فوری طبی امداد ہے۔دوسری جانب آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے سیہون بم دھماکے کے زخیموں کی امداد کے لیے ہدایات کی ہیں۔ فوج اور رینجرز کے اہلکار طبی امداد کے لیے جائے حادثہ پر روانہ ہو گئے ہیں جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ حیدرآباد سی ایم ایچ زخمیوں کو علاج کی سہولت دینے کے لیے تیار ہے۔
ایدھی سروس کے سعد ایدھی کے مطابق 60 سے زیادہ ایمبولیسنز حیدرآباد اور نوابشاہ سے جائے حادثہ کی جانب روانہ کی گئی تھی جبکہ 30 سے زائد ایمبولیسنز وہاں پر پہلے سے امدادی کارروائیوں میں مصروف تھی۔انہو ں نے کہا کہ کراچی اور سکھر سے مزید ایمبولینسز بھجوائی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ زخمی سیہون شریف کے سول ہسپتال بھجوائے گئے ہیں۔
مزار شریف پرہونے والے خودکش بم دھماکے میں ہلاکتوں اور زخمی افراد کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آرہی تھی جس پر صوبہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے بتایا ہے کہ رات گئے تک بم دھماکے میں مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر اسی ہوگئی ہے۔زخمیوں میں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صوبے میں تعینات فوجی افسروں کو بم دھماکے کے بعد سول حکام کو فوری مدد مہیا کرنے کی ہدایت کی ہے۔پاک آرمی کے دستے اور امدادی ٹیمیں سیہون شریف کی جانب روانہ کردی گئی ہیں۔ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں واقع کمبائنڈ ملٹری اسپتال کو بھی زخمیوں کی منتقلی کے لیے الرٹ کردیا گیا ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صوبے میں تعینات فوجی افسروں کو بم دھماکے کے بعد سول حکام کو فوری مدد مہیا کرنے کی ہدایت کی ہے۔پاک آرمی کے دستے اور امدادی ٹیمیں سیہون شریف کی جانب روانہ کردی گئی ہیں۔ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں واقع کمبائنڈ ملٹری اسپتال کو بھی زخمیوں کی منتقلی کے لیے الرٹ کردیا گیا ہے۔
ایک عینی شاہد غلام قادر نے بتایا کہ وہ درگاہ کے سنہری گیٹ پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اس دوران زوردار دھماکہ ہوا اور وہ سب باہر کو بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔انہو ں نے بتایا کہ تھوڑی دور جا کر رکے تو مزار شریف کے اندر سے زخمی حالت میں لوگ باہر نکل رہے تھے اور ساتھ میں چیخ و پکار کر رہے تھے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کا انتظام بالکل نہیں تھا، زخمی مزار کے احاطے میں تڑپ رہے ہیں کوئی اٹھانے والا بھی نہیں تھا،زخمیوں میں بچے اور بوڑھے اور خواتین شامل ہیں۔
ترجمان سندھ پولیس کے مطابق لعل شہباز قلندر مزار کے احاطے میں دھماکے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے حیدرآباد رینج اور دادو ڈسٹرکٹ میں ایمرجینسی ڈیکلیئر کردی۔انہو ں نے مذکورہ واقعے پر ڈی آئی جی حیدرآباد سے جامع انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے۔
صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے سہیون شریف دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشتگرد ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے دہشتگردی کے خاتمے کے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایسے واقعات قوم کے مشترکہ دشمنوں کو شکست دینے کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات قوم کو تقسیم نہیں کر سکتے۔ اس دھماکے کو پاکستان کی یکجہتی پر حملہ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قوم کو دہشت گردی سے ہر صورت نجات دلائی جائے گی۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -