مظلوم کے پیسے پر سود کھانے والے محکمے

مظلوم کے پیسے پر سود کھانے والے محکمے
مظلوم کے پیسے پر سود کھانے والے محکمے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مشہور مقولہ ہے کہ 

Justice Delayed is
Justice Denied
نیب کا ادارہ اسی لیے خصوصی طور پر بنا یا گیا تھا تاکہ ملزمان جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچیں اور محتسب اعلیٰ کو براہ راست اپیلیں بھی اسی لیے بھیجی جاتی ہیں کہ حقداران کی حق رسی جلد ازجلد ممکن ہوسکے ۔مگر نیب میں مقدمات کئی سال سے زیر التوا ہیں۔ اس طرح دیر سے فیصلہ ہو نا حق داران کا اصل حق مارنے کے مترادف ہے ۔بڑے بڑے مگر مچھوں پر نیب ہاتھ بھی نہیں ڈالتی اور حکمران ان کے لواحقین یا ان کے لے پالک نا جائز کاروبار کرنے والے مؤثرسفارشیں ہوجانے کی وجہ سے ویسے ہی دندناتے پھرتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھار کوئی بڑی مچھلی پھنس بھی جائے تو پھر پلی بار گین فارمولہ پر فوراً عمل در آمد کیا جاتا ہے یعنی کھربوں کے فراڈیے سے دو چار کھرب لیکر اس کی واضح رہائی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسکامقدمہ یہیں ختم ہو گیا۔پلی بارگین سے کالا دھن والوں کی تو چاندی ہوگئی ہے ۔اربوں کے فراڈ کرو دسواں حصہ دے کر چھوٹ جاؤ ۔اب قوانین تبدیل کردیے گئے ہیں مگر بیورو کریسی کے راج میں ایسے قوانین بھی اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکیں گے ۔پھر وہی چھوٹ چھاٹ شروع ہو جائے گی۔ ہاں اگر پانامہ لیکس ،بہاماس لیکس زرداری والی وکی لیکس اس کے سوئس اکاؤنٹس سرے محل لندنی اور دبئی فلیٹس محلات کا حساب لے لیا ہو تا تو شکنجے کی سختی کی وجہ سے نئے ملزمان جنم نہ لیتے۔مگر یہاں تو بڑوں کی رہائی اور غریبوں کی شامت آتی ہے۔
انوکھی مثال آج کے دور میں بھی موجود ہے ۔احمد علی جتوئی نامی شخص اسٹیل ملز سے دوسال سے زائد عرصہ قبل ریٹائرڈ ہوچکاہے انہیں آج تک پراویڈنٹ نہیں مل پایا جبکہ وہ وفاقی محتسب کودر خواست ہائے بھیجتا رہاہے۔ ایک درخواست 477/6جنوری2016سے وفاقی محتسب کے دفتر میں گھوم چکریوں کا شکا ر ہے۔ملز کی بیورو کریسی اور ان کا اکاؤنٹ دفتراس کے پراویڈنٹ فنڈزسے مسلسل سود کھا رہی ہے۔کئی پیشیاں بھگت چکا ۔آخری سماعت چوبیس اکتوبر2016کو بھی ہو چکی ہے ۔عمومی طور پر وفاقی محتسب کے ادارہ کے قوانین کی رو سے ساٹھ دن کے اندر فیصلہ سنا دینا ضروری ہوتاہے مگر115روز گزر جانے کے باوجود فیصلہ ندارد ۔بیچارا کئی بار فون کرکے چیخا چلایا ،ای میل بھیجے ،سیکریٹری ادارہ وفاقی محتسب سے بھی تحریری رابطے کیے۔ حکومتی پالیسی ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات جلد از جلد ادا کیے جائیں ۔مگر اس بے چارے کوپراویڈنٹ فنڈ ملنا تھا نہ آج تک ملا۔
در اصل ریٹائرڈ ملازمین کو انہی فنڈز کی وصولی کے بعد کوئی چھوٹا موٹا گھر بنانا اور نوجوان بچے بچیوں کی شادی کرنی ہوتی ہے ۔ان ذمہ داریوں سے فار غ ہو کر باقی بقیہ رقم کسی چھوٹے موٹے کاروبار میں لگا کر اپنی باقی ماندہ زندگی کے دنوں کو گزارا ہوتا ہے ۔کیا ہی احسن ہوتا کہ وفاقی محتسب کا ادارہ اس کی اپیل پر جلد انصاف مہیا کرکے اسے پراویڈنٹ فنڈ فراہم کروا دیتا ۔تاکہ وہ اور اس کے مظلوم بچے فاقہ کشیوں کا شکار ہونے سے بچ جاتے اور وہ بھی مایوسیوں کا شکارہو کر اگلی دنیا کو سدھار جانے کے لیے زندہ درگور نہ ہو تا ۔ایسے ریٹائرڈ ملازمین کے بہت سارے مقدمات زیر التوا ہونے کی وجہ سے بہت سے عمر رسیدہ پنشن یافتہ بے یا ر و مددگار احمد علی جتوئی جیسے افراد کے گھروں میں ان کے بچے دو وقت کی دال روٹی کو ترس رہے ہیں اور حکومت کو ڈھیر ساری بد دعائیں دیتے رہتے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ آئے اور انہیں اس اذیت سے نجات دلوائے اورسٹیل مل و دیگر اداروں کی بیورو کریسی کو غریب پنشنروں کے پراویڈنٹ و دیگر فنڈز پر سود جیسی حرام خوری سے منع کر سکے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -