کیا راہبر کسی رہزنی کے مجرم ہیں
صحن چمن ِ میں انجمن آرائی کس ہرزہ سرائی میں مگن ہے کہ جسے عام شہری کی بے بسی ، فاقے اور بے چارگی دکھائی ہی نہیں دیتی –میں کبھی سنتا ہوں کہ ملکی معیشت روز بروز ترقی کرتی کلانچیں بھرتی دوسروں کے لئے مثالی ہے تو سوچتا ہوں کہ وہ ترقی مجھے غربت کے چہرے پہ سجی نظر کیوں نہیں آتی –
کہتے ہیں کہ خوشحال گاؤں اپنی رہت بیہت سے ہی پہچان لئے جاتے ہیں تو میں بھی تجزیہ کرنے لگتا ہوں اس ملکی خوشحالی کا جو میری نظروں میں دھندلی اور پہاڑ کے اوجھل ہے مگر وہ کہاں ہے- ملکی برآمدات نہ ہونے کے برابر ، روزبروز کی بڑھتی درآمدات ، بند ہوتے کارخانے ، ایک زرعی ملک جب پیاز ٹماٹر کے لئے ہمسایوں کا دستِ نگر ہو تو مجھے بھی کوئی بتائے کہ میں کن پیمانوں پہ ناپوں یہ حکومتی شرح ترقی جس کے باغات مجھے دکھا کر طفل تسلی دی جاتی ہے –
اس ملک کا ہر شہری کچھ عرصہ پہلے 90 ہزار روپے کا مقروض تھا – آبادی بڑھی لیکن قرضہ ایک لاکھ پینتیس ہزار فی کس جا پہنچا – شاید قرضہ بڑھ جائے تو ترقی کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے – اسی لئے ہم جا بجا قرضہ لینے پہنچ جاتے ہیں -کہتے ہیں کہ ایک وزیر اعظم کے جانے سے 14 ارب ڈالرز کا نقصان ہمارے حصہ میں آیا تو میری سمجھ میں پھر یہ بھی نہیں آیا کہ ملک میں حکومت ان کی ، کابینہ انہوں نے چنی ، جماعت کے صدر وہ اور منتخب وزیرِ اعظم خود کہتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم وہی ہیں یعنی پالیسیز انہی کی چلیں گی تو پھر پاکستان ایک نام کا ہی دستِ نگر کیوں ہے کہ اگر وہ اس کرسی پہ متمکن نہیں تو ملک ترقی کی راہوں پہ چلتا منزلوں سے ہی بھٹک جائے جب کہ خضر ِ راہ آج بھی وہی ہیں جو کل تھے- جب کسی نے ملکی معیشت کو ملکی دفاع سے جوڑا تو ٹھن گئی اور ایک دوسری وزارت پہ براجمان آگئے میدان میں اور فرما دیا کہ ملک اب پھر دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا ہے - عجب توجیہہ کی غضب کہانی ہماری فہم و فراست سے کوئی دور کی لائی ہوئی کوڑی محسوس ہوتی ہے- کہتے ہیں کہ جن کے چرچے دانگ ِ عالم میں تھے وہ خود احتساب کی عدالتوں میں پیش ہوتے اپنی وزارت کے پروٹو کول میں گھومتے ہیں اور ملکی ترقی کا پہیہ بھی حسب منشا اعداد و شمار میں ضرورتوں کے مطابق گھما رہے ہیں- وہی جو کہتے تھے کہ سوئس بینکوں میں دو سو ارب ڈالرز لوٹ کی کمائی ہے اور پاکستانی ہی ان کے اصل مالک ہیں اور انہیں واپس ملک لے کر آیا جائے گا ۔ ان پہ ہی الزام لگا ہوا ہے کہ وہ ملکی ڈالرز واپس لانے کی بجائے پاکستان سے باہر بھجوانے میں ملوث پائے گئے ہیں – خدا ہی بہتر جانے کہ حقیقت کیا ہے – میں تو یہ جانتا ہوں کہ سفید پوش اور دولت کے انبار پہ بیٹھے شہنشاہ ٹیکس کے مسئلہ پہ ایک ہی ترازو میں تولے اور ایک نظر سے ہی دیکھے جاتے ہیں – شاید سفید پوش زیادہ شرح سے ہی ٹیکس دیتا ہو کیونکہ اس کا ٹیکس تو ڈائریکٹ ریاست اس کی تنخواہ سے ہی وصول کرتی ہے- مزے تو اس کے ہیں جس کے کئی کئی کنال پہ محل اور بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں ہیں – وہ جس کے بچے بیرونِ ملک پڑھتے ہیں اور وہ خود فرسٹ کلاس میں ایک ماہ ہی میں امریکہ یورپ کے کئی کئی چکر لگاتے ہیں – ان کے اپنے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں جو اعداد و شمار کا ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ سال کے بعد شاید حکومت ہی انہیں کچھ دے کر جان چھڑواتی ہے- ملکی محاصلات بڑھانے کے لئے ان پہ کب ٹیکس لگتا ہے کون ان کے ٹیکس کے بابت پوچھ سکتا ہے- صاحب یہی تو وہ اشرافیہ ہے جو دنیا کو پاکستان کا ترقی پسند چہرہ دکھاتے داد وصول کرتے ہیں – کیا یہ خدمت کم ہے – ٹیکس تو سفید پوش پہ لگنا چاہیئے کہ وہ غریب کیوں ہے وہ کوشش کیوں نہیں کرتا کہ اشرافیہ کا حصہ بن سکے اس جرم میں وہ دیتا ہے ہر قسم کا بل – بجلی کا ہو یا گیس کا ، ہسپتال کا ہو یا سکول کا ، پانی کا ہو یا اپنے مکان کا – زرعی اراضی کا ہو یا دکان کا جس ماہ کسی صاحب زر کا بل زیادہ آ جائے اور وہ واویلہ مچائے ،حکومتی دفتر سر پہ اٹھا لے یا اشرافیہ سے سفارش کروا لے تو یہ ادارے اس کا بل بھی اسی سفید پوش کے بل میں ایڈ جست کرنے کی اتم صلاحیت رکھتے ہیں – زمیں کے ٹکڑے بخیے کرتا پلاٹ بیچتا مافیہ – اونے پونے زمیں خریدتا اور سونے کے مول بیچتا اشرافیہ اس قدر مضبوط ہے کہ کچھ بھی اس کے قدم ہلا نہیں سکتا – وہ اس سب کے باوجود عوام کے ووٹ سے حکمرانی کے سنگھاسن پہ بیٹھنے کا اتنا وسیع تجربہ رکھتا ہے کہ خالی ڈبے بھی ہزاروں ووٹ اس کے حق میں اگل دیتے ہیں – ساڑھے چار سال ملک کو ترقی کی راہ پہ لانے والے اور قرضوں کے کشکول پکڑے قرضوں کی ادائیگی کے لئے جب مہنگے سود پہ قرضے لیتے ہیں تو ترقی کے دعوے شاید کچھ جچتے نہیں ہیں – وہ جن کی ملکیت اسٹیل کے کارخانے دن رات دھواں اگلتے ہیں جب وہ ملکی اسٹیل مل کے گھاٹوں کا تخمینہ لگاتے بند کرنے کا عندیہ دیتے ہیں تو شاید گریبان میں نہیں جھانکتے – ہواؤں میں پرواز کرتے طیارے جب ذاتی ہوں تو روز بروز ترقی کی شادیانے بجاتے مسافر اٹھاتے چشمِ زدن میں افلاک کی بلندیاں چھو لیں لیکن جب ملکی ائر لائن کی بات آئے تو غائب طیارے ان کے زیر ِ استعمال ایک گاڑی سے بھی کم قیمت پہ بک جائے کسے پرواہ جی – ملکی ائر لائن مسافر اٹھائے یا منشیات – اسے کوئی با ہوش اڑائے یا نشہ میں دھت کون کرے اس موصوف کی درگت جب سب ایک منصوبہ بندی سے خود ہی کروایا جارہا ہو - پیسے کے بل بوتے پہ حاکم بننے والے اور پیسہ کمانے والے ایوانوں سے ملکی اداروں کے بابت جب ڈوبتے ٹاٹینک کی صدائیں آتی ہیں تو ترقی کا مطلب کوئی ہمیں بھی سمجھائے کہ ملکی خزانے کیسے بھر رہے ہیں جب کہ ملکی ادارے ایک ٹائٹینک کی صورت سفید ہاتھی کہلاتے ہیں – اگر ملکی ترقی کے اہداف اتنے ہی خوش کن ہیں تو آپ کی جیبوں میں بیرونِ ملک کے اقامے اور پاسپورٹ کیسے – آپ کی جائیدادیں ترقی کرتی اپنی پاکستانی زمینوں پہ کیوں نہیں ہیں – آپ اپنی ملیں سمندر پار لگانے پہ مجبور کیوں ہیں – کیوں آپ کے بچے پاکستانی کہلوانے کو ایک روگ سمجھتے ہیں اور دیارِ غیر جا بستے ہیں – انہیں ملکی ادارے بھی بلائیں تو وہ نہ آئیں اور خود کو غیر ملکی کہلائیں ان سے ہم کیا فیض پائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن خدارا اس پاکستان پہ رحم کیجئے اور رہبر رہزن میں کچھ فرق کیجئے – پاکستان میرا دل ہے میری جان ہے اس کو سامنے رکھ کے فیصلے کیجئے -
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔