صرف اب امیر کا بچہ پڑھے گا
ہم نے پڑھا، ہم نے آزمایا اورپھر زیور تعلیم ہمارے کام بھی آیا۔ علم انسان کو تاج سرداراں پہناتا ہے اور معاشرے کا ایک بے مثال شہری بناتا ہے۔ علم کو چرایا نہیں جاسکتا اور جاہل و مقام نہیں پاسکتا جو ایک علم کے داعی کو حاصل ہے۔ پروقت بدلا۔ زمانے کی توجیہات بدلیں۔ معاشرتی زبوں حالی میں علم بکا بھی اور علم جھکا بھی۔ علم جو ایک مومن کی میراث تھی اس نے ایک بدعنوان کی جھولیاں بھی خوب بھریں اور علم جھونپڑیوں کے مقدر سے نکالا اور محلوں میں جابسا۔ مومن کی میراث ایک دولت مند کی باندی بنی اور اسی کے سرسجی۔
میرے ماں باپ مجھے سمجھاتے تھے کہ ہم غریب لوگ ہیں جن کی کوئی جاگیر نہیں۔ پڑھو، لکھو، نام کماﺅ، اونچے رتبے پاﺅ، ہمارا شملا اونچا کرو اور دنیا میں اپنا مقام بناﺅ۔ سکول پہنچے تو استاد محترم کی شفیق جھلک یہی کہتی سنائی دیتی کہ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔ کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب۔
اخبارات کی زینت بنی دو خبریں نظروں سے گزریں تو سوچ کی زاویے کچھ ایسے کھنچے کہ علم نظروں میں عبادت سے تجارت کی شکل بناتا چلا گیا۔ ہائیکورٹ نے بچوں کے انٹری ٹیسٹ کو دوبارہ منعقد کروانے کا حکم دیا تو منصف پر رشک آیا لیکن جب کچھ علم کے تاجریوں کی گرفتاریوں کا سناتودل بجھ گیا۔ لاہور کی نامور اکیڈمیوں سے لیک ہوتے ہوئے پیپرز اور افسران بالا کی ناک تلے بکتے مستقبل۔ انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کامول بیس سے تیس لاکھ لگاتے دلال اور حل شدہ پیپرز سے پیپرز بدلاتے یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے اعلیٰ عہدوں پر متعین عمال نے تعلیم کے میدانوں میں بلند و بانگ دعوے داروں کی گورننس کا پول کھول دیا۔ جابجا بنی اکیڈمیاں جن میں علم کے نام پر ہوتے دھندے اور ملوث معلم قسمت نوع بشر ہی تو اہل دوسرے سے تبدیل کررہے ہیں۔ کسی کی قابلیت اور لیاقت کا پھر کیا موازنہ اور کیا میرٹ۔ اسی سال سی ایس ایس کا نتیجہ بھی تین اشاریہ چودہ فیصد رہا اور لاہور کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی تین رکنی ٹیم جو ڈپٹی ڈائریکٹر نواز گوندل، سی ای او ہیڈ کوارٹر رئیس احمد خان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محسن پر مشتمل ہے۔ چار افراد کی تلاش میں چھاپے مارتی کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہے۔ دس لاکھ میں بکتا آنے والے دنوں کا سی ایس ایس افسر پانچ لاکھ پہلے پانچ لاکھ کامیابی کے بعد، پوسٹ آفس میں اسلام آباد جانے والے پیپرز تبدیل اور انٹرویو لینے والے ممتحن لاکھوں میں بکا ہوا جو مرضی کہو پیسے پکڑاﺅ اور نشست ریزرو کرواتے جاﺅ۔
کاش میرے وہ استاد محترم آج بھی زندہ ہوتے اور میں ان کو بتاتا کہ علم بے وقعت ہے۔ بات پیسے کی ہے اور دولتمند ہی اپنے بیٹے کا مستقبل خرید سکتا ہے۔ جھونپڑیوں میں دیے کی روشنی میں جلائے ہوئے غریب تو شاید اس تیل کا خرچہ ہی بھررہا ہے جو حصول علم پر خرچ ہورہا ہے۔
علم کی تجارت کرتے تعلیم یافتہ افسرانا ور ان کے ماتحت نہ صرف کسی حقدار کا حق ماررہے ہیں بلکہ معاشرے میںاور برائیوں کو بھی پھیلارہے ہیں جس سے دہشتگردوں کے ہاتھ چڑھتے ملک کے پڑھے لکھے بے روزگار بچے معاشرے سے ناانصافی کا بدلہ لیتے سڑکوں پر خون کی ندیاں بہارہے ہیں۔ وہ خود تو جان سے جاہی رہے ہیں لیکن جس انتہا پسندی کو ملک میں راہ دکھارہے ہیں کل وہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرے گی، اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ دولت کے بل بوتے پر تعینات افسر کس قابلیت سے ملک کے مقدروں کا فیصلہ کریں گے اور منی لانڈرنگ اور بیرون ملک سرمایہ کاری سے اپنا بڑھاپا بھی محفوظ بنائیں گے۔ ایک غریب وہی ٹھیلا کھینچتا یا اپنا تعلیمی اسناد کا پلندہ اٹھائے ایک دفتر سے دوسرے دفتر خوار ہوگا۔ میرٹ میرٹ کی رٹ لگانے والے کیا قابلیت کی بنا پر میرٹ لسٹ لگاتے ہیں یا جس کا باپ جتنا دولتمند بیٹا اتنا ہی بڑا افسر یہ بھی ہمیں آنے والے دنوں میں دیکھنا ہے۔
اس تحریر کے توسط میں تو حکمرانوں سے گزارش ہی کرسکتا ہوں کہ علم کے شہر والی ﷺ اور اس شہر کی میراث پر دروازے کا کردار ادا کرتے علی ؓکی یوں تحقیر مت کیجئے۔ بے مول کے سرمائے کو دولت میں مت تولیے۔ ایک غریب کو بھی علم حاصل کرنے کے مواقع بلا معاوضہ دیجئے۔ بدعنوانوں کی گردنوں پر اپنی گورننس کا پھندہ کس لیجئے۔ ذمہ داروں کو قرار واقعی موردالزام ٹھہرائیے اور اس ناسور کو کاٹ پھینکئے جو وطن عزیز کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ علم کی میراث اور اس کے ثمرات اس کے حق دار تک پہنچائیے، یہی پاکستان کا کل اور مستقبل بھی ہے۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔