صحافت اور حب الوطنی کے تقاضے
ہم صحافی تو نہیں ہیں لیکن ہم سب صحافت پڑھتے ہیں۔ صحافت دیکھتے ہیں اور صحافت سنتے بھی ہیں۔ہمیں صحافت کو درپیش مسائل کا تھوڑا بہت ہی ادراک ہوسکتا ہے۔زیادہ علم اس پیشے سے براہ راست تعلق رکھنے والوں کو بخوبی ہوگا۔
دی گارڈئین برطانیہ کا شہرہ آفاق اخبار ہے۔ وکی لیکس کو گارڈئین نے چھاپہ اور ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کو گارڈئین منظر عام پر لایا۔ جولئین اسانج جو وکی لیکس کے موجد ہیں اور ایڈورڈ سنوڈن دونوں سپر پاور کے اشتہاری مجرم ہیں۔گارڈئین نے دیانت دارانہ اور نڈر صحافت کی مثال قائم کی۔ اور اس کے نتیجے میں کافی انکوائریاں بھگتیں۔ہماری نظر ایک انڈر لائن پیرے پر پڑی۔ لکھا تھا’’ ہم آپ تک سچائی پہنچاتے ہیں۔ صاف اور شفاف صحافت کی روائت ہمارا نصب العین ہے لیکن ہم اپنی یہ روائیت برقرار رکھنے کے لیے آپ سے مالی معاونت کی امید کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا اخبار اسی طرح آپ تک حقائق اور سچائی پہنچاتا رہے۔ ‘‘
سی۔این۔این کے لیے سات سال تک رپو ٹنگ کرنے والے ایک صحافی اپنے خیالا ت کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’بارہ سال قبل سی۔این۔این کو ٹائیم وارنر نے خرید لیا۔ ایک کارپوریٹ کمپنی نے دنیا کے ایک مانے جانے والے نیوز نیٹ ورک کو خریدا تو چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ کارپوریٹ کمپنی کی ترجیحات دیانت دارانہ اور شفاف صحافت ہوگی یا پرافٹ؟ ‘‘
نیٹ ورک کے بانی مسٹر ٹرنر نے تشویش کا اظہار کیا کہ ان کے زمانے میں سی۔این این کو دنیا کا مانے جانے والا نیوز چینل بنایا گیا لیکن ایک کارپوریٹ کمپنی کو یہ انتخاب کرنا ہے کہ وہ رسک لے گی یا پرافٹ کمائے گی؟
موصوف صحافی مزید بتاتے ہیں کہ اپنے والد صاحب سے تیانامن سکوائر کی روداد سنی جو خود سی۔این ۔این کی براہ راست رپورٹنگ کے لیے تیانامن سکوائیر میں موجود تھے۔
جب چین میں تیانامن سکوائر میں بلوے کو منتشر کرنے کے لیے چینی فوج نے احتجاج کرنے والوں پر ٹینک چڑھا دئیے تھے تو وہاں بچوں کی ایک تعداد بھی موجود تھی۔ موصوف کے خیال میں چینی فوج نے ان بچوں کو اس لیے شوٹ نہیں کیاتھا کیونکہ سی۔این۔این کی ٹیم اپنے کیمروں کے ساتھ واقعے کی براہء راست رپورٹنگ کررہی تھی۔ سی۔این ۔این اپنی شفاف اور جرأت مندانہ رپورٹنگ کے ذریعے بین الاقوامی پالیسیاں تبدیل کرواتا تھا۔ اب سی۔این۔این میں کچھ لوگ بیٹھ کر بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ ساتھ آٹھ آدمی بیٹھ کر بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ موقع پر اپنا سٹاف بھیجنا کافی مہنگا کام ہے۔ سیٹلائٹ ٹرک۔ سٹاف ۔ سفر کے خراجات ۔ اس کے بجائے کمرے میں بیٹھ کر بحث مباحثہ کرنا کافی بچت والا کام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم میں بھی سی۔این۔این نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے۔
وطن عزیز کے سب سے بڑے نیوز چینل کی بات بھی زیادہ مستند جانی جاتی ہے۔ ایک گھنٹے کے پروگرام میں آدھ گھنٹہ اشتہار کا ہوتا ہے۔ یہ اشتہار پاکستانی نہیں ہوتے۔ کوئی اکّا دکّا پاکستانی ہوتو ہو۔ سارے ویسٹرن ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ہم اپنے سب سے بڑے چینل کے سب سے اعلٰی اور مستند تجزیہ نگار سے کافی متاثر ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف اپنی فیلڈ کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ لیکن پانامہ کیس میں انکا تجزیہ اور تبصرہ اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے رہنما سے ذاتی مخاصمت رکھتے ہیں۔ یعنی انہوں نے موصوف رہنما کے خلاف عدالت میں چارہ جوئی کی اور وہ عدالت میں حاضر نہیں ہورہے۔ اگر موصوف تجزیہ نگار ایک سیاسی لیڈر سے ذاتی طور پر الجھے ہوئے ہیں اور اس ذاتی چپقلش کے باعث بغض اور کینہ رکھتے ہیں تو ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں گے؟
ہم اپنی جمہوریت کا موازنہ کس جمہوریت سے کرتے ہیں ؟ مغرب سے؟ امریکہ سے؟ برطانیہ سے؟ جتنی پرانی اور مضبوط جمہوریت ہو۔ اس کی بھی حدود اور قیود ہیں۔ آپ نے دیکھا جولیان اسانج آج بھی لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں قید ہے اور باہر نہیں نکل سکتا۔ اس کی گرفتاری میں صرف یہ امر مانع ہے کہ برطانیہ کی پولیس یا سکیورٹی ادارے بین الاقوامی قانون کی روح سے سفارت خانے کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتے۔
ایڈورڈ سنوڈن امریکہ سے بھاگ کر روس چلا گیا تھا۔ اور جب بھی واپس امریکہ گیا اس پر مقدمات چلیں گے اور سزا ہوگی۔ ان دونوں حضرات نے حساس معلومات دنیا تک پہنچائی تھی اور ملکی سلامتی اور مفادات کے لیے کام کرنے والوں کو خطرے سے دوچار کیا تھا۔ حالانکہ سار ا سچ تھا جو انہوں نے دنیا تک پہنچایا لیکن وہ سچ دنیا تک پہنچا کر وہ غداری کے مرتکب ہوئے۔ مغرب کی مثالی جمہوریت کہتی ہے کہ جمہوریت کا ہرگز مطلب نہیں کہ ملکی سلامتی اور دفاع سے متصادم ہوا جائے۔
ملکی دفاع کی ذمہ داری جن اداروں کی ہے۔ انکی بھی اپنی پالیسی لائینز ہیں۔ انکی بھی دوستیاں اور دشمنیاں ہیں۔ اگر صحافتی سرگرمی خدا نہ کرے ملکی سلامتی۔ یا ملکی سلامتی کے ساتھ منسلک اہم منصوبوں کے لیے نا مناسب ہو تو اس سے اجتناب کرنا عین محب الوطنی ہے۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔