ناکام خارجہ پالیسی
پاکستان اور بھارت کے تعلقات متعدد وجوہات کی بنا پر کشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک کے سیاسی رہنما عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانے کے لئے بھی ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کے لئے کئی عملی تجاویز بھارت کی حکومت کو پیش کی تھیں ۔بھارت کے سابقہ وزیر اعظم اٹل واجپائی نے اور بعد ازاں ، موہن سنگھ نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے لئے دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن تمام تر کوشش کے باوجو بھی بھارت اور پاکستان اپنے باہمی مسائل کو طے نہ کر سکے۔ تاہم، اِس بات کا کریڈٹ جنرل مشرف کو ضرور ملنا چاہئے کہ انہوں نے بھات کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور دوسرے مسائل کو طے کرنے کے لئے دلیرانہ انداز میں کوشش کی۔ بھارت کے وزیر اعظم واجپائی اورمو ہن سنگھ اِس بات کا برملا ا اظہار کر چُکے ہیں کہ مشرف کے زمانے میں ایسا ماحول بن چُکا تھا کہ بھارت اور پا کستان کے درمیاں کشمیر کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ طے پا جاتا ۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ کشمیر جیسے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کُچھ لو اور کُچھ دو کی بُنیاد پر مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جُرأت کا مظاہرہ کر سکے۔
بد قسمتی سے دونوں مما لک کے سیاسی لیڈروں نے اپنی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیاں حائل مسائل کو غیر ضروری طور پر اُجاگر کرکے مسائل کو عوام کی انا کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ لہذا کوئی بھی حکومت ایسے مسائل کو طے کرنے کے لئے جُراتمندانہ اقدامات نہیں اُٹھا سکتی۔ کیونکہ اُنکو ہمشیہ خطرہ رہتا ہے کہ عوام اور خاص طور پر اپوزیشن اُن کو آڑے ہاتھوں لے گی۔ یہ خوف پاکستان اور بھارت کو اختلافی امور طے کرنے سے کوسوں دُور رکھتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے بجٹ کا خاطر خواہ حصہ اسلحے کی خریداری اور فوج پالنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ اگر یہ خطیر رقم عوام کہ فلاح بہبود کے لئے خرچ کی جائے تو دونوں مُلک خوشحالی کی جانب سفر کا آ غاز کر سکتے ہیں۔ بھارت کا رویہ پاکستان کے تئیں ہمیشہ ہی سے نا مناسب رہا ہے۔ کیونکہ بھارت نے روزِ اوّل ہی سے پاکستان کے قیام کو دِل سے قبول نہیں کیا۔ بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے ہمیشہ ہی سازشوں کا سہارا لیا۔ پاکستان اور دوسرے پڑوسی ممالک کو دبانے کے لئے اور اپنے رُعب کا سکہ جمانے کے لئے فوجی بر تری قایم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان کبھی بھی بھارت کی دھونس سے خوف زدہ نہیں ہوا۔ پاکستان نے شروع ہی سے کشمیری عوام کی اخلاقی اور سیاسی مدد کے لئے کوشش کی ہے۔ جو کہ بھارت کے لئے سوہانِ رُوح ہے۔ علاقے میں برتری حاصل کرنے کے لئے بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے۔ جس سے علاقے میں اسلحے کا توازن بگڑ گیا۔ پاکستان نے اپنے دفاع میں نیو کلیئر پاور حاصل کی۔ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے باز رکھنے کے لئے امریکہ اور دوسرے ممالک نے بہت کوشش کی لیکن پاکستان اپنے مُفادات کے تحفظ میں ایٹمی بم بنانے پر مُصر رہا اور بالاآخر ایٹم بم بنانے میں کا میاب ہو گیا۔پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں لیکن پاکستان نے جیسے تیسے نا مساعد کا مُقابلہ کرکے دُ نیا میں ایک ا یٹمی طاقت بن گیا۔ لیکن یہ بات امریکہ اور اِسکے حواریوں کو پسند نہیں آئی ۔ خاص طور پر بھارت کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان سے ایٹمی صلاحیت یا تو چھین لی جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اُس پر ا یسی پا بندیاں عائد کر دی جائے کہ پاکستان کی حکومت اِن پابندیوں سے عاجزآ کر اپنے ایٹمی پروگرام کو ہی ترک کر دے۔
پاکستان پر بھارت اور دوسرے ممالک نے کئی الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ سَب سے پہلا الزام یہ ہے کہ پاکستان میں بننے وا لا ایٹمی بم دوسرے اسلامی مما لک کو منتقل ہو سکتا ہے۔ پاکستان اقتصادی طور ہر مستحکم مُلک نہیں۔ اِس کی حکومت مالی مشکلات کے با عث اپنی ایٹمی صلاحیت دوسرے غیر ذمہ دار ممالک کو بیچ سکتی ہے۔ جس سے دُنیا میں اچانک بہت بڑا حادثہ روُنما ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی کئی بہانے بنا کر پاکستان کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کبھی اِس خیال کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان نے نے ایٹمی صلاحیت خفیہ طور پر اوسامہ بن لادن کو فروخت کر دی ہے۔ اِن سب باتوں کا مْقصد یہ تھا کہ پاکستان کا ناکام اور غیر ذ مہ دار مُلک قرار دے کر اُس سے ایٹمی صلاحیت چھین لی جائے یا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے اُنکو تباہ کر دیا جائے۔ لیکن یہ بات ہمارے لئے خوشی کا با عث ہے کہ پاکستان کی فوج نے ہر بُرے حالات میں ایٹمی اثاثہ جات کی بڑی ذمہ داری سے حفاظت کی ہے۔ اور ایٹمی بم کی سیکورٹی کا فول پروف نظام متعارف کروایا ہے۔ جس سے امریکہ اور دوسرے ممالک پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو محفوظ قرار دیتے ہیں۔ تاہم جنر ل مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کے نامور سائینس دان ڈاکڑ قدیر خاں پر الزام تھا کہ انہوں نے ایران، لیبیا اور دوسرے ممالک کو ایٹمی صلاحیت فراہم کی ہے۔ اِن ممالک کی فہرست میں شمالی کوریا بھی شا مل تھا، پاکستان پر الزام تھا کہ شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لئے پاکستان نے شمالی کوریا کو ایٹمی صلاحیت مہیا کی ہے اور اِس خدمت کے عوض شمالی کوریا نے پاکستان کو میزائیل ٹیکنالوجی فر اہم کی ہے۔ پاکستان کی حکومت ڈا کٹر قدیر پر لگے ہوئے الزامات کی مذمت کر تی رہی ہے لیکن امریکہ کا اصرار رہا کہ ڈاکٹر قدیر کو اُنکے حوالے کیا جائے تاکہ وُہ اُن سے تفتیش کر سکیں۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے دباؤ کا مُقابلہ کیا اور ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اتنا ضرور ہُوا کہ ڈاکٹر قدیر خاں نے امریکی الزامات کا اعتراف کر لیا۔ جسکی پاداش میں جنرل مشرف نے اُنکو امریکہ کے حوالے کرنے کی بجائے خود تفتیش کرنے کا کام انجام دیا اور اُنکو اُنکے گھر میں نظر بند کر دیا۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت دو ایسے مُلک ہیں جن کے پاس ایٹمی صلاحیت موجود ہے۔ دونوں ہی ممالک نے ایٹمی معاہدے پر دسخط نہیں کئے۔ دونوں ممالک کی دُشمنی بھی سارے دُنیا پر عیاں ہے۔ بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کی مخا صمت سے پریشان ہیں۔ اُنکو خطرہ ہے کہ اِن ممالک کے درمیان کبھی بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ تاہم پاکستان کے مُقابلے میں دُنیا کی سُپرطاقتیں بھارت کو زیادہ محفوظ اور ذمہ دار مُلک سمجھتی ہیں۔ اِس لئے وُہ اِس حق میں ہیں کہ بھارت کو نیو کلئیر سپلائر گروپ کا ممبر تسلیم کر لیا جائے۔ کیونکہ بھارت نیو کلئیر سپلائر گروپ کا ممبر بن کر ایٹمی توانائی فراہم کرکے کروڑوں ڈالرز زرِ مبادلہ کی شکل میں کما سکتا ہے۔ امریکہ بھار ت کی اِس سلسلے میں حمایت کرتا ہے کیونکہ امریکہ کو اپنا مال بیچنے کے لئے بھارت جیسی منڈی کی ضرورت ہے۔ چین ہمارا مخلص دو ست ہے۔ جس نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کی مد د کی ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کئی سالوں سے مثالی چلے آ رہے ہیں۔ یہ بات بھارت اور اُ س کے حلیفوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ خاص طور پر سی پیک کا معاہدہ ا مریکہ اور بھارت کے لئے تشویش کا با عث ہے۔ بھارت پاکستان سے ایٹمی صلاحیت چھیننے کے لئے اسرائیل کی ائیر فورس کے ذریعے بھی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کروا سکتا ہے اور اِس حملے کو امریکہ کی خفیہ آشیر باد بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ امریکہ پاکستان کو چین کا حلیف بنتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔ کیونکہ چین اور رُوس مِل کر امریکہ کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ لہذ ا سی پیک کو نا کام بنانے کے لئے امریکہ اور اِس کے خفیہ ادارے پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اپنی خا رجہ پا لیسی کو ایک دفعہ غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔