سیاست کی کتابِ اخلاقیات کے بھولے اسباق
سیاست میں آج جب آنکھیں اندھی اور ہاتھ معذور ومفلوج ہیں تو زبان چل رہی ہے- زبان بھی ایسی کہ ہر وقت اپنوں کی مدح سرائی اور دوسروں کی ہرزہ سرائی کرے- لڑائیوں کی اس ہوشربا برسات میں روزانہ کے چینلز ، سوشل میڈیا اور اخبارات اپنے دامن میں کیچڑ اور سنسی خیزی سمیٹے گرتی ہوئیں معاشرتی اقدار کے آئینہ دار ہیں کہ جن میں عقل کی چھت سے مسلسل ٹپکتیں قطرہ قطرہ کثافتیں ہر چہرہ کو داغدار کر رہی ہیں- شاید توہین آمیز الزامات میں اپنے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا ہی حقیقی سیاست بن کر رہ گیا ہے- جوش ِ خطابت میں سیاست دان کیا کیا نہیں کہہ جاتے ہیں جو غالبا" انہیں تو شرمند ہ نہیں کرتا لیکن ان کی عوام کے لئے وجہء شرمندگی ضرور بنتا ہے- سیاست میں اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے ہوتیں سازشیں اور منصوبہ بندی ساری ملکی سیاست کو ہی ایک گورکھ دھندہ بنائے ہوئے ہیں- سب یومِ حساب سے غافل ہیں جو وقت آنے پہ اقتدار ِ اعلیٰ پہ متمکن اس ذات کے سامنے اپنے کئے پہ ایک دن ضرور بغلیں جھانکیں گے اور اس کی پکڑ میں اس کے رحم و کرم کو ہی اپنے لئے نجات کی صورت پائیں گے-
یہ کیا عجب نہیں کہ اخلاق و کردار کی تربیت سے مبراء سیاسی کارکن اور نوجوان کھلے عام اور ٹاک شوز میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ اچھالی گئیں پگڑیاں معاشرے سے اچھے برے کی تمیز اور بلند نظری ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں گرے ایک اشرف المخلوقات سے اس کی بڑائی کا احساس ہی چھین رہی ہیں- ایک دوسرے کو دیے گئے خطابات اخلاقیات کے قبرستان میں نوحہ کناں ہیں اور ان پہ سجیں کھوکھلے ابدان کی قبور پہ تختیاں انسانیت کی عمارت کے تاراج ہونے کی تصویر بنیں گنگ اور خاموش ہیں- کہیں تو کہیں بھی کیا -سیاست کو عبادت کہنے والے اس بندگی میں اقتدار کے مکروہ دیوتا کے سامنے سجدہ ریز ہیں- اندرونی خلفشار ، انفرادی مفادات اور گروہی سیاست کے لبادے میں گھناؤنے الزامات اور تہمتیں آئندہ نسلوں کو کیا سماج دے رہی ہیں کوئی بھی سوچ نہیں رہا- باہمی احترام و وقار سے آزاد کردار کشی کی سیاست شاید ان سیاست دانوں کی بچی کچھی عزت بھی خاک میں ملا رہی ہے - دور ہوتیں منزلیں اور دھندلائے ہوئے راستے عوام کو زبوں حالی اور بنتے ابھرتے تباہی کے کھنڈرات اس سے بھیانک طوفانوں میں ساحلوں کی امید و یاس ہی چھین رہے ہیں – کسی راہبر کے انتظار میں راہزنوں کے درمیاں بے آبرو قوم کسے نجات دہندہ کا مقام دے دماغی طور پہ ماؤف ہو رہی ہے-
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے – اسلام کے نام پہ وجود میں آئے اس ملک کی اگر سات دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے راہنماؤں نے قائد کے پیغامات ، نظریات اور اصولوں سے کبھی کوئی راہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی، سیاسی ، خاندانی اور جماعتی مفادات کو ہی ہمیشہ ترجیح دی - ہر شعبہ ہائے زندگی میں بد نظمی ، بد عنوانی،کرپشن اور قانون شکنی ایک معمول بن گئی - آئین و قانون کی پاس داری ، پارلیمنٹ کا وقار اور بالا دستی اور جمہور کی حکمرانی ایک ادھورا خواب بن کر رہ گیا- طاقتور نے اختیارات کا ہمیشہ ناجائز استعمال کیا اور ملک کو دو لخت کر کے بھی الزامات ایک دوسرے پہ دھر دیے اور کسی نے کبھی ذمہ داری بھی قبول نہ کی تو معافی کا خواستگار کون ہوتا- کوئی بھی وزیر اعظم آج تک اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا – کوئی سولی پہ لٹکا اور کسی نے جلاوطنی کاٹی اور کسی سے کٹوائی گئی- مارشل لاء کے چار ادوار اور اس سے بھی سبق نہ سیکھنے والی قیادت آج بھی بالغ النظری ، دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے- قوم کو صالح، پاک باز، با کردار اور اصول پسند راہنما کبھی میسر ہی نہیں ہوا جو آیا اس نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا- کبھی وکی لیکس تو کبھی پانامہ کے ہنگاموں نے ان کی امانت و صداقت کے پول کھول کر رکھ دیے- جس پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی مہر تصدیق ثبت کی- ملک کی ترقی ، استحکام اور خوشحالی کی عمارت بد عنوانی اور کرپشن کے ستونوں پہ استوار کی گئی جس کا انجام آج سب کے سامنے ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے سیلِ رو اں کے آگے بند باندھنے والا قانون اسی کے ہاتھوں میں بے بس اور لاچار دن گن رہا ہے- جمہوریت کو پروان چڑھنے کے لئے فقط وقت ہی درکار نہیں ہوتا بلکہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری رویہ بھی ان کی بلوغت کا سبب بنتا ہے- یہ رویہ قول و فعل سے نمو پاتا ہے اور شخصیات کی اہمیت حقیقی معنوں میں ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے جو اس گاڑی کو اپنی پٹڑی پہ رکھتا ہے- لیکن یہاں تو نہ کوئی ڈرائیور اور نہ کوئی گاڑی جو آیا اس نے اپنی حکمت سے اپنی ہی نئی دکانداری سجا لی اور فکری جہت کو ایک طرف رکھ کےاپنے سیاسی ، معاشی اور نظریاتی اقتدار کو طول دینے کی خاطر سارے جمہوری عمل کو ہی خطرے میں ڈال دیا- اس طرز فکر کی بنیاد پہ یہ کہنا کہ جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے - در اصل جمہوریت کے ساتھ ایک مذاق ہے- حالا نکہ وقت کی ضرورت کو سالوں پہلے ہی اقبالؒ نے بھانپ لیا تھا اور کہا تھا-
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جا ئے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
شایدسیاست کی کتاب کے یہی وہ بھولے ہوئے اسباق ہیں جن پہ آئندہ کی سیاست اور سیاست دان عمل پیرا ہو کر اس ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں اور وطن کو ایک رفاحی اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں جس کے خواب دیکھنے والے اس کی حقیقتوں کے ساتھ آج بھی بندھے ہوئے ہیں-
...
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔