امریکی التجا پر چین شمالی کوریا کے کان کھینچنے پر رضا مند
امریکہ اور رُوس فوجی تصادم سے بچنے کے لئے بھر پُور کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن دُنیا کے مُُختلف خطوں میں مُفادات کی چپقلش کی وجہ سے دونوں کی براہ راست جنگ کے امکانات کو یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ شام کے ہوئی اڈے پر میزائیلوں سے حملہ دونوں مُلکوں کے درمیان نار اضگی کا باعث بنا تھا۔ مبصرین کے مُطابق کئی برسوں کے بعد ایسے حالات پید ا ہوئے ہیں کہ دنوں کے تعلقات بہت ہی نچلی سطح تک آ گئے تھے۔ تاہم، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھا اور حالات کو بہتر بنانے میں مدد کی۔ شام رُوس کا پرانا حلیف ہے۔ اور مشرق وسطیٰ میں رُوس کا فو جی اڈہ بھی۔ رُوس اِس حکومت کو ہر قیمت پر بچانا چاہتا ہے ، تاکہ وُہ اپنے اڈے کو قایم رکھ سکے۔ لہذا رُوس نے شام کی مدد کرنے کے لئے ہتھیاروں کے علاوہ دفاعی مشیر بھی متعین کر رکھے ہیں۔ با الفاظِ دیگر، رُوس شام کو کو ہر طرح کی مدد فراہم کررہا ہے اور اِس کے ساتھ ایران بھی اپنے تما م وسائل کے ساتھ شام کی مدد کر رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بشار الاسد سے نا خوش ہیں۔ وُہ سمجھتے ہیں کہ بشار الاسد کیو جہ سے تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ وُہ امریکہ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وُ ہ شام کی حکومت کو گرانے کے لئے فوجی طاقت استعمال کرے گا۔ وُہ امریکہ کے حالیہ حملے کی بھر پُور حمائت کرتے ہیں۔ کیونکہ وُ ہ ایران کے اثر و رسوخ کو مشرقِ وسطیٰ میں خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکی رُوس کے ساتھ بوجوہ فوجی ٹکراؤ سے گریزاں ہے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ رُوس سے کُْچھ حالات بہتر ہوئے ہیں تو شمالی کوریا سے امریکہ کے تصادم کے امکانات بڑ ھ گئے ہیں۔ جس کی پُشت پناہی چین کرتا ہے۔
چین نے ۵۳۔۱۹۵۰ میں شمالی کوریا کی جنگ کے ایام مد د کی اور اُس دِن سے لیکر آج تک چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا ہے۔ چین شمالی کوریا کو پھل،فروٹ، سبزیوں کے علاو ہ توانائی تک ہر چیز فراہم کرتا ہے ۔ دوسر ے لفظوں میں کوریا پنسولا میں شمالی کوریا چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنیر اور حلیف ہے۔ چین نے مو جودہ حکمران کے اجداد کی بھی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ لیکن شاملی کوریا خطے میں اپنا رُعب جمانا چاہتا ہے۔ لہذ ا وُہ اپنے پڑوسی جنوبی کوریا کو دھمکاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ تمام معاملات مذکرات سے طے پا جائیں۔ لیکن شمالی کوریا کا حکمران ایسی کسی بھی تجویز کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اوبامہ کے ایام میں شمالی کوریا کو راہِ راست پر لانے کے لئے چین کے تعلقات کو استعمال کیا گیا۔ لیکن امریکہ کو زیادہ کامیاب نہیں مِلی۔ شمالی کوریا نئے نیو کلئیر دھماکے کرکے امریکہ کو اور جنوبی کوریا کو دباؤ میں رکھتا ہے۔ شائید یہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے ساری دُنیا میں شمالی کوریا کا نام ہر چھوٹے بڑے مُلک کی زُبان پر رہتا ہے۔ لیکن امریکہ میں صدر کے بدل جانے سے حالات بھی بدل چُکے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ساکھ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا وُہ کسی بھی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ کے مُفاد میں سَب کُچھ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے چین کو کہا ہے کہ وُہ اپنے دوست کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ ٹرمپ او ر اوبامہ مختلف المزاج شخصتیں ہیں جو اپنے اپنے انداز میں کام کرتے ہیں۔ لہذا شمالی کوریا کو بین الا اقوامی آداب کو ذہن میں رکھتے ہوئے تمام مُلکوں کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا۔۔ زُبانی کلامی وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔ بین الاقوامی معاہدوں پر عمل آمد کروانے کے لئے امریکہ فی الحال اپنا سیاسی دباؤ ڈالنا چاہ رہا ہے۔ لیکن شمالی کوریا کی عوام اور فوج امریکہ کی کوئی بھی بات سُننے کے لئے تیار نہیں۔ شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کو جنوبی کوریا کی ہر طرح سے مدد کرنے پڑے گی۔لیکن جیسا کہ پہلی سُطور میں لکھا گیا ہے امریکہ اِس صورتِ حال سے پریشان ہے۔ وُہ رُوس کے بعد چین سے تعلقات خراب نہیں ہونے دینا چاہتا ۔ لہذا امریکہ نے چیں سے کہا کہ وُہ اپنے حلیف کو سمجھائیں کہ وُہ معاندانہ کار روائیوں سے باز رہیں۔ ورنہ امریکی کسی بھی جار حیت کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔اگر چیں مدد نہ بھی کرے تو بھی امریکہ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کے لئے کافی ہے۔ امریکہ کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
امریکہ نے چین سے کہا ہے کہ وُہ مزید بد مزگی سے بچنے کے لئے شمالی کوریا پر اپنا دباؤ ڈالے رکھے۔ لیکن شمالی کوریا اب چین کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ جس سے خطہ میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ شمالی کوریا نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ یا اُسکے کسی حلیف مُلک نے میر ی جانب آنکھ اٹھائی تو میں اُس مُلک پر پوری طاقت سے حملہ کرو ں گا۔ حتی ٰکہ امریکہ کو بھی مٹا کر خاک کردُوں گا۔ بالفاظِ دیگر تیسری عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات موجود ہیں۔ لیکن شمالی کوریا علاقے میں اپنی بر تری کو قایم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ہر آپشن کو استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وُہ چین کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر چین کی بات کو بھی شمالی کوریا
سمجھنا نہیں چاہتا تو امریکی صدر علاقے میں شمالی کوریا کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے۔ اِس لئے امریکہ نے چین سے در خواست کی ہے کہ وُہ چُپکے سے شمالی کوریا کے حکمران کو حقیقت سے آگاہ کرے کہ اُ مریکہ زیادہ دیر تک اُنکی بد معاشی بر ادشت نہیں کر سکتا۔ چین کی مدد حاصل کرنے کے لئے ا مریکہ نے چین کو امریکہ میں اپنی مصنو عات فروخت کرنے کے لئے ٹیکس میں کمی کرنے کی پیشکش کی ہے۔ مزیدبراں، ڈبلیو ٹی سی میں اہم رُکنیت دینے کی حامی بھر لی ہے۔ چین بھی شمالی کوریا کے رویوں سے تنگ ہے۔ تاہم اُمید ہے چند ایک مشترک مُفادات کی وجہ سے چین امریکہ کی تجویز مان گیا ہے اور شمالی کوریا کو سمجھانے کے لئے رضا مند ہو گیاہے۔ جس سے یہ امُید پیدا ہو گئی ہے کہ علاقے میں مزید نو کلئیر دھماکوں سے بچنے کے لئے شمالی کوریا اجتناب کرے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مزاج کے باعث اوبامہ سے مُختلف ہیں۔ وہُ شمالی کوریا کے حملے کو روکنے کے لئے جوابی حملہ بھی کر سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے داعش اور اُسکے بچے کھُچے لوگوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے ہر طرح کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ صدر ٹرمپ حا لات کے مُطابق رو ائیتی سے لیکر نیوکلئیر تک کوئی بھی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔افغا نستان میں صدر ٹرمپ نے سب سے بڑا غیر روائتی بم پھینک کر ثابت کر دیا ہے کہ وُہ کُچھ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عالمی جنگ سے بچنے کے لئے تمام مُلکوں کی ذمہ داری ہے کہ وُہ اپنے حد سے تجاوز نہ کریں۔اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے اجتناب کریں۔جذبات فیصلوں سے چند منٹ میں دُنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ ایٹمی جنگ سے بچنا سَب کی ذمہ داری ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔