نکاح کیا نہیں ہے ؟

نکاح کیا نہیں ہے ؟
نکاح کیا نہیں ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دورِ جدیدآزادی کا دور ہے۔ اس دور میں آزادی کی لہر مغرب سے اٹھی اور ہر نسل، رنگ اور تہذیب اور ان کی اقدار کو اپنی رو میں بہا کر لے گئی۔ اس بہاؤ کا شکار دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ عفت کی وہ قدر بھی ہوئی، جو نکاح کی زنجیر سے مرد و عورت کو میاں بیوی کے مقدس اور پاکیزہ رشتے میں جوڑ ے رکھتی ہے۔

آج کی مغربی دنیا میں نکاح کوئی قانونی اور سماجی تقاضا نہیں ہے بلکہ اسے ثقافتی نوعیت کی ایک اضافی چیز سمجھا جاتا ہے۔ رہا مشرق تو اس میں نکاح کی زنجیرمغرب کی طرح ٹوٹی تو نہیں ، مگر کمزور ضرور ہوگئی ہے۔ مسلم قوموں میں نکاح آج بھی ایک مطلوب شے ہے ، لیکن میڈیا کی آزادروی اور نکاح کو مشکل بنادینے والے معاشی اور سماجی حالات کی بنا پر لوگ اب دوسرے راستے ڈھونڈنے لگے ہیں۔ اس عمل میں نکاح کے نام پر بعض ایسے تعلق وجود میں آ رہے ہیں جو رسمی طور پر نکاح اوراپنی حقیقی شکل میں بدکاری ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں ا ن کا چلن عام نہیں لیکن عرب ممالک میں جہاں گرم آب و ہوا کے علاوہ دولت کی گرمی بھی عام ہے اور اس کے ساتھ مذہبی روایت کی پاسداری کا چلن بھی ابھی متروک نہیں ہوا، نکاح کی متعدد ایسی اقسام عام ہورہی ہیں۔ ان میں دورانِ سفر کیا گیا نکاح، بیرونِ ملک قیام کے دوران میں کیا گیا نکاح، معاشرے کی نظر سے چھپ کر کیا گیا نکاح، کسی خاص مدت کے لیے کیا گیا نکاح وغیرہ شامل ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم فقہی انداز میں بحث کر کے نکاح کی ان اقسام میں پائی جانے والی غلطی بیان کریں ، ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اصل نکاح اپنی روح کے اعتبار سے کیا ہوتا ہے۔
ہمارے ہا ں نکاح کے بارے میں یہ تصور رائج ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت دو گوا ہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کر لیں تو یہ نکاح کا عمل ہے۔یہ نکاح کا ایک فقہی تصور ہے۔ نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے ایک مرد اور ایک عورت کے مستقل اور عَلانیہ رفاقت کے اس عہد کا نام ہے جس کا اظہار وہ معاشرے میں اپنے جاننے والوں کے حلقے میں کرتے ہیں۔ یہاں مستقل تعلق کا مطلب دوامی تعلق نہیں۔ میاں بیوی جب چاہیں یہ رشتہ ختم کر دیں۔ مگر نکاح کرتے وقت اس تعلق کوکسی خاص مدت اور حالات کا پابند نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے مستقلاً ساتھ نبھانے کے عزم سے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں میاں اوربیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حوالے سے کچھ حقوق و ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ یہ تعلق چونکہ عَلانیہ بھی ہوتا ہے اس لیے معاشرہ ان حقوق و فرائض کا ضامن ہوتا ہے اور ان دونوں میاں بیوی کو اپنے ایک بنیادی یونٹ یعنی خاندان اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کو ان کی اولاد کے طور پر بلا تردد قبول کر لیتا ہے۔
یہی نکاح ہے اور صرف یہی نکاح ہے۔قرآن اسی کو پاکدامنی، عصمت اور عفت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ قرآن کے اپنے بیانات کے مطابق صرف دو صورتوں میں ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ ایک مسٰفحین اور دوسرا متخذی اخدان ہونا(مائدہ5:5)۔ پہلے کامطلب یہ ہے کہ انسان کا اصل مقصود صرف خواہشِنفسانی کی امنڈتی موج کا نکاس ہے۔ یہ ظاہرہے کہ ایک عارضی عمل ہے۔ اس کا مقصود میاں بیوی کے مستقل تعلق میں رہ کراپنی حفاظت کرنانہیں بلکہ جوانی کی مستی سے لطف اندوز ہونا ہے۔ ہم نے اردو میں بڑ ے محتاط انداز میں قرآن کے مدعا کو بیان کیا ہے وگرنہ قرآن کے الفاظ تو بالکل واضح ہیں کہ یہ نکاس جذبات کا ایک عارضی عمل ہے ، جس میں مستقل رفاقت کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔
اس عمل کی سب سے عام شکل پیشہ ور عورتوں کے پاس جانا ہے۔ مگر نکاح کے نام پر کیے جانے والے وہ تمام معاہدات جن میں مستقل رفاقت پیش نظر نہیں ہوتی بلکہ کسی خاص وقت یا حالات کی قید لگی ہوتی ہے اسی کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان میں اصل خرابی یہ ہوتی ہے کہ مستقل رفاقت نہ ہونے کی بنا پر میاں بیوی کی حیثیت میں جو حقوق و فرائض خود بخود عائد ہوجاتے ہیں وہ ایسے تعلقات میں زیر بحث نہیں آتے۔ فریقین کی سیرت و عادات، اولاد اور اس کی تربیت، خاندان اور اس کی تشکیل ایسے تعلقات میں قابلِ ذکر چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ اصل مسئلہ وقتی جذبات کی تسکین ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایسے تعلقات کے جواز کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا۔
مسٰفحین کے بعد دوسری چیز متخذی اخدان ہونا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں مرد اور عورت کے بیچ میں تعلق تو کچھ مستقل نوعیت ہی کا ہوتا ہے ، مگر یہ سب معاشرے کی نظر سے بچ کر چوری چھپے ہوتا ہے۔ یاری آشنائی کا یہ تعلق اعلانِ عام کے اس وصف سے محروم ہوتا ہے جو اس تعلق کو معاشرے کی طرف سے رشتہ کی سندِ قبولیت عطا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقوق و فرائض پر کوئی توجہ دلانے والا رہتا ہے اور نہ خاندان کا وہ ادارہ وجود میں آتا ہے جو زمانے کے ہر سرد و گرم اور مزاجوں کے ہر اختلاف کے باوجود ممکنہ حد تک اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا تعلق مزاجوں کے معمولی اختلاف، خوف و پریشانی اورزندگی کے کسی معمولی سے مسئلے کی مار بھی نہیں سہہ پاتا اور اپنے پیچھے بدنامی، ناجائز اور لاوارث بچوں اوربے وفائی کا داغ لیے منتشر جذبات اور شکست خوردہ نفسیات پر مبنی شخصیات چھوڑ جاتا ہے۔
نکاح کیا ہوتا ہے یہ بات دنیا ہمیشہ سے جانتی تھی۔ نزولِ قرآن سے قبل بھی نکاح ہوتے تھے۔ نبوت سے قبل خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہؓ سے اسی طرح ہوا۔ اس لیے قرآن نے یہ نہیں بتایا کہ نکاح کیا ہوتا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے مسٰفحین اور متخذی اخدان کے الفاظ استعمال کر کے ہمیشہ کے لیے یہ بتادیا کہ نکاح کیا نہیں ہوتا۔اسی کی بنیاد پر زمانہ جاہلیت میں رائج نکاح سے انحراف کی بعض صورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا تھا اوراسی کی روشنی میں آج ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ نکاح کے نام پر معاشرے میں جو کچھ سامنے آتا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔اورجو غلط ہے وہ کس بنیاد پر غلط ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -