شامی مسلمان امداد کے منتظر

شامی مسلمان امداد کے منتظر
شامی مسلمان امداد کے منتظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 2011ء کا سال عالم ِعربی کے مسلمانوں کے لیے خوفناک سال تھا۔ افریقہ کے شمال مغرب میں واقع اسلامی ملک تیونس میں ظلم وجبر کے ستائے ہوئے محنت کش مظلوم کی آہ سے افریقہ سے لے کر ایشیا تک عالم عربی کے بڑے بڑے اسلامی ملک ہل کررہ گئے۔بظاہرظلم کے خلاف آواز بلند کی گئی ،لیکن مظلوموں کا نام لے کر اغیار نے خانہ جنگی کی ایسی آگ لگائی  کہ پچھلے چھ سالوں سے لاکھوں مسلمان اس میں جل کر خاکستر ہوئے اورلاکھوں لوگ  بے یارومدد گار در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔تیونس،لیبیا،الجزائر،یمن،مصر اور شام  میں "عرب بہار "کے نام سےجوخزا ں آئی اس کے اثرات آج بھی وہاں کے مسلمانوں کو گھائل کررہے ہیں۔عرب بہار کے نام  پر اغیار کا منصوبہ عالم عربی کو لوٹنا اور ٹکڑے ٹکڑے کرناتھا۔تیونس،الجزائر اور مصر  میں فی الوقت اگرچہ اغیار اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے،لیکن بہرحال عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کران ممالک کومستقل بدامنی کا شکار کردیاگیاہے۔جب کہ لیبیا اور شام میں اغیار نہ صرف اپنے مذموم منصوبے میں کامیاب ہوئے ہیں  بلکہ ان ممالک پرمکمل نہ سہی کافی حدتک قابض بھی ہوگئے ہیں۔

عرب بہار سےسب سے زیادہ نقصان انبیاء کی مقدس سرزمین شام کو پہنچا ۔جہاں چھ لاکھ سے زائد مظلوم لوگ مارے گئے۔ 60لاکھ سے زائد شامی گھر سے بے گھر ہوئے اور اپنی جان بچانے کے لیےدوسروں ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔یہ تعدادرجسٹرڈشامی مہاجرین کی ہے۔جب کہ لاکھوں لوگ ان کے علاوہ ہیں،جو شام اور دیگر ملکوں میں بے یارومددگار پھنسے ہوئے ہیں۔شامی خانہ جنگی سے زیادہ اس وقت  اس جنگ سے متاثر ہونے والے لاکھوں شامی مہاجرین دنیا کے لیے آزمائش بنے ہوئے ہیں۔یورپ اورامریکا سمیت کئی ملکوں نے ان مہاجرین کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کےدوران مسلمانوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے ساتھ شامی مہاجرین کے امریکا داخلے پر پابندی کا عندیادیاتھا۔20 جنوری کے بعد کوئی بعید نہیں امریکا میں مقیم 15 ہزار سے زائد شامی مہاجرین کو بے دخل کرنے کے لیے ان کی زندگیوں کو تنگ کردیاجائے اور مزید شامی مہاجرین کی آمد کو بین کردیا جائے۔

یورپی ممالک بھی شامی مہاجرین سے سخت پریشان ہیں۔برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ایک وجہ شامی مہاجرین کی یورپ آمدتھی ۔جب کہ جرمنی اوریورپی یونین کے دیگرممالک نے یورپی یونین کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ترکی سے معاہدہ کررکھا ہے کہ وہ شامی مہاجرین کو یورپ نہ آنے دیں۔بدلے میں وہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کریں گے۔اقوام متحدہ کی 2016کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 48کے قریب ممالک میں 63لاکھ 20 ہزار کے قریب رجسٹرڈ شامی مہاجرین پناہ گزیں ہیں۔جب کہ ایک کروڑ 35 لاکھ شامی لوگ بنیادی ضروریات زندگی سےمحروم ہیں،جنہیں انسانی ہمددری کی اشد ضرورت ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق27 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کے ساتھ  ترکی  پہلے نمبر،سعودی عرب  20 لاکھ سے زائد شامی  مہاجرین کے ساتھ دوسرے ،لبنان 15 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کے ساتھ تیسرے اور اردن تیرہ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کے ساتھ چوتھے نمبر پرہے۔جب کہ یورپی ممالک میں سب سے زیادہ شامی مہاجرین جرمنی اور یونان میں پناہ گزیں ہیں۔

شامی مہاجرین کی یہ وہ تعداد ہے جو رجسٹرڈ  ہے۔جب کہ لاکھوں غیر رجسٹرڈ مہاجرین ان کے علاوہ ہیں۔گزشتہ چھ سالوں سے جہاں یہ مظلوم شامی مہاجرین گھرسے بے گھر ہوئے ،رشتے داروں سے بچھڑے ،وہیں بہت سے مہاجرین اپنی تہذیب،ثقافت اور روایات سے بھی دورہوتے جارہے ہیں۔دنیا بھر کی عیسائی میشنریزشام کے مظلوم مہاجرین کو بھٹکانے کے لیے چابکدستی سے کام کررہی ہیں۔چنانچہ اکتوبر2016میں عیسائیت  کے سربراہ پوپ نے شامی مہاجرین کے استقبال کے دوران ان کے پاؤں دھوکرچومے۔اس دوران پوپ نے یورپ کے سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "جو خود کو عیسائی کہتے ہیں اور پھر شامی مہاجرین کی مدد نہیں کرتے وہ منافقت سے کام لے رہے ہیں"۔پوپ کی اس رحمدلی کا مقصد بھلا اس کے سوااورکیا ہوسکتاہےکہ بے یارومددگار مسلمانوں  کو دینِ اسلام سے پھیر کر عیسائیت سے جوڑدیا جائے۔ عیسائیت کے مبلغین افریقہ اور دیگر ملکوں میں عیسائیت کی تبلیغ کے دوران یہی حربہ آزماتے  آرہےہیں۔یورپ میں جانے والے کئی شامی مہاجرین کی عیسائیت قبول کرنے کی خبروں سے اس کو مزید تقویت ملتی ہے۔

مفلوک الحال شامی مہاجرین  کی اپنی اقدار سے دور ہونے کی بڑی وجہ کسمپرسی اور غربت سے دوچار ہوناہے۔ہمسایہ ممالک نے شامی مہاجرین کو پناہ اگرچہ دیدی ہے ،لیکن ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے تاحال مکمل انتظامات نہیں کیےجاسکے۔یہی وجہ ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی شامی مہاجرین آباد ہیں وہ صحت،غذائی قلت اوربدامنی جیسے مسائل کا شکارہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق لبنان میں پناہ گزین شامی مہاجرین میں سے ستر فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 50فیصد لوگ ایسےعلاقوں میں آباد ہیں جہاں ہروقت ان کو بدامنی لاحق ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق داعش  ایسےشامی مہاجرین کا پیچھا کررہی ہے جنہوں نے شام میں داعش کی حمایت نہیں کی تھی۔یہی حال اردن،عراق اور مصر میں بسنے والے شامی مہاجرین کا ہے۔شام کےپڑوسی ممالک لبنان،عراق،اردن، اور ترکی نے ابتدا میں اگرچہ شامی مہاجرین کے لیے اپنے بارڈر کھول دیے تھے لیکن اب یہ ممالک بھی اپنے بارڈرز پر محتاط ہوگئے ہیں۔ترکی کے علاوہ دیگر ممالک میں شامی مہاجرین  کی آمد اسی وجہ سے کم ہوگئی ہے۔گزشتہ سال یورپ نے بھی اپنے بارڈر شامی مہاجرین کے لیے بند کردیے تھے ۔کیوں کہ پیرس اور جرمنی میں ہونے والے حملوں کے بعد دنیا بھر میں شامی مہاجرین کے خلاف نفرت کی ایک تحریک نے جنم لیا۔جس سے شامی مہاجرین کے مسائل میں دگنااضافہ ہوا۔دنیا بھر میں جہاں کہیں شامی مہاجرین آباد ہیں یا تو عارضی کیمپوں میں آباد ہیں،یا پھر دیہی علاقوں میں۔پناہ دینے والے ملکوں کی طرف سے انہیں وہاں کے عام شہریوں کی طرح سہولیات حاصل نہیں۔وہ وہاں کی نیشنلٹی نہیں لے سکتے۔عام شہریوں کی طرح کاروبار یا ملازمت نہیں کرسکتے۔زمین نہیں خرید سکتے۔عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔علاج معالجے میں بھی عام شہریوں کی طرح انہیں حقوق حاصل نہیں۔اگرچہ ترکی میں شامی مہاجرین کو دیگر پناہ دینے والے ملکوں کی بہ نسبت زیادہ سہولیات حاصل ہیں۔مگر بہرحال شامی مہاجرین ترک معاشرے کے ساتھ ابھی تک مکمل ہم آہنگ نہیں ہوسکے۔

دنیا بھر میں جہاں کہیں شامی مہاجرین آباد ہیں ،انہیں کسی حدتک پھر بھی  ضروریات زندگی  پہنچ رہی ہیں۔جب کہ شام میں پھنسے اب بھی لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ صرف  غذائی قلت کا سامنا ہے،بلکہ سردی اور بارش سے بچاؤ کے لیے مناسب سہولیات بھی درکار ہیں۔پاکستان کے معروف عالم دین مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مولنا عبدالستار کے بیان کیے گئے عینی مشاہدے سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔یونسیف کی رپورٹ کے مطابق  گزشتہ چھ سالہ شامی خانہ جنگی کےدوران ایک لاکھ اکیاون ہزار سے زیادہ شامی بچے پیدا ہوئے۔تقریبا8.4ملین شامی بچوں میں سے ہرشامی بچہ خانہ جنگی سےمتاثر ہورہاہے۔ان میں زیادہ مشکلات ان مہاجرین بچوں کو ہے جو کیمپوں میں پیدا ہوئے۔مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سےیہ بچےکئی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ان بچوں کی مدد کے لیے یونیسف ادارہ اپنے طور پرکام کررہاہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کاادارہUNHCRبھی شامی مہاجرین کے لیے متحرک نظرآتاہے۔لیکن اقوام متحدہ جب شامی خانہ جنگی کےحل کے لیے پچھلے چھ سالوں سے کچھ نہیں کرسکا تو لاکھوں مہاجرین کے لیے بھلا کتنی سنجیدہ کوشش کرسکتاہے؟۔اس لیے اصل کام مسلمانوں کا ہےکہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ترکی،قطر اور سعودی عرب نے شامی مہاجرین کی مدد کے لیے جوکوششیں کیں وہ قابل ستائش ہیں۔لیکن  چند ممالک کی تنہاجدوجہد سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ساٹھ لاکھ سے زیادہ مہاجرین کی مد د کے لیے پورے عالم اسلام کو متحرک ہونا ہوگا۔ بالخصوص پاکستان  کو اپنے شامی مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔کیوں کہ یہی وہ واحد ملک ہے جواسلام اور مسلمانوں پر آئے مشکل وقت میں اپنا اہم کرداراداکرتاہے۔اس لیےحکومت پاکستان اور ہرپاکستانی اور ہرمسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنےشامی مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے حسب وسعت مالی مدد کرے،ورنہ کم ازکم دعاؤں میں ضرور اپنے مظلوم بھائیوں کو یادرکھے۔تاکہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان"انصرأخاك ظالما اومظلوما"(اپنےمظلوم بھائی اور ظالم کی مددکرو،ظالم کو ظلم سے روک کر اور مظلوم کو ظلم سے بچا کر)پر عمل ہوجائے اورشامی مظلوموں کے دکھوں کا مداواکرکے دین اسلام سے دور کرنے والے عناصر سے انہیں بچایاجاسکے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -