تنہائی میں نکلا ایک آنسو اور اللہ کا وعدہ
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک پتھر پہ ایک بزرگ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ وہ سر زور زور سے پتھر پہ سجدے کی صورت میں مار مار کے رو رہے اور بلبلا کے اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو اُس نے کہا میں شیطانِ عظیم ہوں۔ کہا تم شیطان ہو تو نمازیں پڑھ کے سجدے کیوں کر رہے ہو؟ کہتا ہے یہ میری تنہائی کا معاملہ ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے عذاب کا وعدہ مجھ پہ پورا کر لے گا تو مجھے ضرور بخش دے گا۔
کیا ہمارا ایمان اس شیطان سے بھی کمزور ہوگیا کہ ہمیں خدا پہ بھروسا کم اور زمانے پہ بھروسا زیادہ ہو گیا؟ ہم رسولﷺ کی ایسی امت ہیں خواتین و حضرات جن میں سے ایسے صحابیؓ محترم جنکی چالیس سالہ زندگی میں سے چونتیس سالہ زندگی ایک کروٹ کے بل گزر گئی حضرت عمرانؓ بن حثیث تھے ، ان کے جسم پہ ایک ایسا پھوڑا نکل آیا کہ وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے۔ اب آٹھ ، سات،چھ سال کی عمر میں زخم ہو گیا اور لیٹ گئے اور کبھی کروٹ نہیں لی، ایک ہی طرف لیٹے رہے۔ اب جب صحابہؓ سے ملا کرتے تھے اُسی پلنگ پہ، بڑے بھی ہوئے ہوں گے تو صحابہؓ کہتے تھے کہ ہمیں حضرت عمرانؓ کا چہرہ دیکھ کے بڑا حسد ہوتا تھا کہ ہمارے چہرے تو گرمی سے مرجھا جاتے تھے مگرحضرت عمرانؓ بن حثیث عجیب آدمی تھے ،پلنگ پہ لیٹے رہے ساری زندگی اور اتنا خوب صورت اور حسین چہرہ تھا ان کا کہ ہمیں رشک آتا تھا اُن کی جوانی پر۔ زخم کے ساتھ چونتیس سال لیٹے رہے ۔پھر آخری ایام میں پوچھنے کی جرأت کی کسی نے کہ آپؓ تو اتنا بیمار ہیں کہ ساری زندگی کروٹ تک نہیں لے سکتے، اپنی حاجت کے لیے نہیں اٹھ سکتے مگر یہ آپ چہرا اتنا خوب صورت اور ہشاش بشاش کیسے ہے؟ حضرت عمرانؓ بن حثیث کہتے ہیں جب میں چھوٹا تھا تو مجھے بڑا دکھ تھا کہ اللہ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ پھر ایک دن لیٹے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ عمرانؓ اگر اللہ تجھ سے یہی چاہتا ہے کہ تو ایک کروٹ میں زندگی گزارے تو توُ اپنے ربّ کے ساتھ راضی کیوں نہیں ہو جاتا؟ عمرانؓ بن حثیث کہتے ہیں پھر اس دن میں اللہ کی رضا میں راضی ہو گیا۔ کہتے ہیں جس دن فجر کو میں اللہ کی رضا پہ راضی ہوا، اس دن اشراق میں اللہ نے میری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹا دیے۔ پھر حضرت عمرانؓ بستر پہ لیٹے، آسمان سے زمین پہ اترتے اللہ کے فیصلوں کو دیکھنے لگ گئے۔ پھر زمین سے آسمان کی طرف فرشتوں کو جاتے ہوئے دیکھتے ۔ کہتے ہیں حضرت عمرانؓ بن ’’پھر میں مصروف ہو گیا آسمان اور زمینوں کے معاملات کو طے کرنے میں..‘‘غور کیجیے کہ آپؓ لیٹے ہیں، کروٹ نہیں لے سکتے اور طے کیا کر رہے ہیں؟ آسمان اور زمینوں کے معاملات! کیوں کر رہے ہیں؟ صرف ایک فیصلہ زندگی میں کیا، بچپن میں کر لیا ہو گا کہ اگر اللہ اسی طرح راضی ہے مجھ سے تو اے اللہ! میں تیرے اس حکم میں راضی ہوں، اور اللہ نے ان کی آنکھوں سے تمام پردے اٹھا دیے۔ اس لیے جب کوئی بھائی اور بہن یہ کہتا ہے ناں کہ یہ غیب کا علم کیسے ہو سکتا ہے؟ تو خدا کی قسم غائب تو ہو ہی نہیں سکتا۔ مسلمان کے لیے تو کوئی غائب شے ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کائنات کا سب سے بڑا غائب خدا ہے۔ خدا سے بڑی کوئی ہستی یا شے غائب نہیں ہے اور اس غائب پہ جو شہادت ہے وہ ہمارے رسولﷺ کی ہے کہ اللہ موجودہے۔ معراج، شہادتِ خداوند ہے۔ جب سب سے بڑے غائب کی شہادت محمدﷺ کی ہو تو ایک مومن کے لیے دینِ غیب کیا حیثیت رکھ سکتا ہے؟ وہ تو خدا کو جانتا ہے، وہ تو آسمانوں کو جانتا ہے، کیا وہ دنیا کے علم کو نہیں جانے گا؟ کیا وہ لوگوں کی ذات کو نہیں جانے گا؟ یہ وہ امت ہے جو سکون تلاش کرتی ہے۔ کتنی بدنصیب امت ہے جو سکون تلاش کر رہی ہے اور اس کی نظر سے ہماری ماں سیدہ عائشہؓ کی یہ بات نہیں گزری ۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ سے دعا مانگتے سنا، آپﷺ کہہ رہے تھے اے اللہ’’ میری امت میں جو شخص چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کا روزِ قیامت حساب نہ کرنا۔‘‘ اب ہم میں سے اکثر چالیس کو پہنچ گئے ہیں، یہ حدیث میرے لیے بھی تو اتنی ہی ہو گی نا...جو چالیس کو پہنچ جائے، اے اللہ! اُس کا حساب نہ کرنا۔ اللہ نے کہا’’ محمدؐ میں نے تیری دعا قبول کی جو تیری امت میں چالیس کو پہنچ جائے گا، میں اس کا حساب نہیں کرتا‘‘ عرض کیا ’’اے اللہ جو پچاس کو پہنچ جائے اُس کا بھی حساب نہ کرنا‘‘ اللہ کہتے ہیں ’’اچھا محمد!ؐ جو تیری امت میں پچاس کو پہنچ گیا، میں اس کا بھی حساب نہیں کرتا‘‘ کہا ’’یااللہ! جو میری امت میں ساٹھ کو پہنچ جائے، اس کا بھی حساب نہ کرنا‘‘
اللہ بھی تو پھر اللہ ہے ناں، رب للعالمین ہے۔ وہ رحمت للعالمینﷺ ہیں ۔کہا ’’اچھا محمدؐ! جو تیری امت میں ساٹھ کو پہنچ گیا، میں اس کا حساب بھی نہیں کروں گا‘‘ پھر اللہ! کے رسول ﷺ کہنے لگے ‘‘ یااللہ میری امت میں سے ، جب کوئی ستر کو پہنچ جائے گااس کا بھی حساب نہ لینا‘‘
اللہ نے فرمایا’’ میں اُس کو دوزخ کی آگ نہیں دکھاؤں گابلکہ میں اُس مومن کو، اُس مسلمان کو اُس تیرے اُمتی کو بلاؤں گا کہ ادھر آ! تو ستر کا تھا، تو محمدﷺ کی امت میں سے ہے، ادھر آ بات سن! یہ ساری کائنات تیرے سامنے کھڑی ہے تو جس جس کو جنت میں لے کے جانا چاہتا ہے اس کو اپنے ساتھ لے جا‘‘
اللہ تعالیٰ کہتے ہیں’’ رسولﷺ !آپ جس امت کی شفقت، شفاعت مانگیں گے، میں صرف اس کی شفاعت نہیں کروں گا بلکہ اس سے جو لوگ محبت کرنے والے ہوں گے، جو اس کی نسبت والے ہوں گے، میں ان کو بھی ساتھ کر دوں گا‘‘وہ رب جو بخشش کے لیے تیار بیٹھا ہے، وہ رسول ﷺجو چالیس سال سے سترسال کی فکر میں اللہ سے رو رو کے دعائیں مانگ رہے ہیں اور امت جو ہے وہ سکون تلاش میں ہے؟ سکون کی تلاش کر رہی ہے؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسولﷺ کھڑے ہو گئے اور آہوں سے، ہچکیوں سے رونے لگے۔ اب غور کیجیے ذرا کہ ہم ہی ہیں ناں وہ امت جس کے لیے رسول ﷺ کھڑے ہو کر رو رہے تھے ۔ کہہ رہی ہیں اتنی ہچکیوں سے رو رہے تھے کہ آپﷺ کا سینہ اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے بھیگ گئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے جا کر رسولﷺ کو پکڑا اور حوصلہ دیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ نے تو آپ کی دعائیں بھی قبول کر لیں ،اب آپ کیوں رو رہے ہیں؟ اللہ کے رسولﷺ کہتے ہیں کہ’’ عائشہؓ کیا تو نہیں چاہتی کہ میں اللہ کے شکر گزار بندوں میں سے بنوں؟‘‘ سنت رسولﷺ اللہ کی شکر گزاری کے لیے رونا ٹھہرا۔ ہم خدا کو عقل سے تلاش کرنا چاہتے ہیں، ہو سکتا ہے مل جائے لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آسان طریقہ بتا دیا۔ اللہ کی قربت آپ کے آنسوؤں میں رکھ دی اور پھر خدا تعالیٰ نے ان آنسوؤ ں کی عزت اور احترام میں پتا ہے کیا فرمایا ؟ اللہ کہتے ہیں حدیث قدسی میں ہے کہ جس شخص نے عمر اوّل میں تنہائی میں، میری محبت میں ایک آنسو بہا دیا میں نے دوزخ کی آگ اس پر حرام کر دی۔ تو یہ جو سارا سکون کا ذریعہ ہے ناں یہ علم کی بنیاد ہو سکتا ہے ، یہ فکر کی بنیاد ہو سکتا ہے لیکن اگر اللہ کی سنت دیکھئے تو اللہ نے تمام معاملات کو آپ کی تنہائی کے ایک آنسو میں پرو دیاہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔