خادمین امریکہ
تحریر۔شاہدنذیرچودھری
امریکہ نے اِدھرپاکستان کی گردن پر پاؤں رکھا اورفوجی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا اور پھراُدھرجھپکی دیکر پاکستان کی سرزمین پر حملہ کردیااور تحریک طالبان افغانستان کے امیر ملاّ منصور کو ہلاک کرکے طالبان کو پاکستان مخالف کارروایوں پر اُکسادیا ہے۔ان حالات میں پانامہ لیکس کا ایشو دم سادھ لے گا،پہلی سی تندی تیزی ختم ہوجائے گی،کرپشن لیگز میں نظریہ ضرورت پر اتفاق ہوجائے گا۔
بعضوں کا خیال تھا کہ پینتالیس کروڑ ڈالرکی خطیر امریکی امدادپاک فوج کو دینے سے پہلے امریکہ کرپٹ پاکستانی جمہوریت کو بچانے کے لئے نئے ایشوز فریم کرنا چاہے گا۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ جس ملک کو کرپشن فری ملک دیکھنیکے لئے کیری لوگر بل میں شفافیت کی ضمانتوں کا تقاضا کرتا تھا،کرپشن کرنے والوں کے خلاف ٹال فری نمبر جاری کردیاتھا لیکن اب اس ملک کو کرپشن لینڈدیکھنے پر بضدہوچکا ہے ۔ہمارے بہت سے پالیسی سازوں اوردانشوروں کو یقین ہے کہ امریکہ پاکستان میں سوائے کرپشن کے کسی اور نظام کو مضبوط ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ۔ایک کمزور پاکستان اسکی ضرورت ہے لہذا وہ پاکستان میں اقتدار کاضامن بن چکا ہے۔پاکستان میں اقتدارکی جڑیں جہاں جہاں سے پھوٹتی ہیں وہ متواتر ایک نظام کے تحت اُنکی دیکھ بھال کرتا ہے۔امریکہ پاکستان کو الجھے ہوئے مسائل اور دلدل سے نکالنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا البتہ جب اسکے خادموں کو کوئی مشکل درپیش آتی ہے تو امریکہ انکی مدد کرتا ہے اور اس نے ایسے پتّے سنبھال رکھے ہوتے ہیں کہ جنہیں استعمال کرکے وہ پاکستان میں کوئی نیا ایشو فریم کرکے صورتحال بدل دیتا ہے۔
پانامہ کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے خادمین امریکہ کو نکالنے کے لئے امریکہ نے دہشت گردی کے گھسے پٹے پلاٹ پر پھر نئی فلم چلادی ہے اور یہ سارا کھیل ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا چلا جائے گا اور پاکستان میں قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوگا تو پانامہ لیکس کا پرنالہ خشک ہوجائے گا۔ امریکہ کے حالیہ بیان کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ اس نے افغان طالبان سربراہ ملا منصور کو کوئٹہ میں ڈرون حملہ کرکے ہلاک کردیا ہے ،امریکہ کا دعویٰ رہا ہے کہ ملا منصور نے پاکستان کی سپریم ایجنسی آئی ایس آئی کے تعاون سے عروج حاصل کیاتھااور 2001ء سے اس کمانڈر نے امریکہ اور اس کے اتحادی جرنیلوں کی ہر طرح کی حکمت عملی ناکام بنادی تھی۔وہ ملا عمر کے انتہائی معتمد اور منظم ترین دست راست تھے۔انکی ہلاکت سے اب پاکستان پر سوال اٹھایا جائے گا کہ پاکستان چونکہ امریکہ کو مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے لہذا اسکی کریڈیبلٹی باعث تشویش ہے ۔دوسری جانب پاکستان کے خلاف طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا دروازہ کھول دیا جائے گا ۔امریکہ افغانستان اور بھارت افغانستان میں پائیدار امن اور مذاکرات کی راہ میں پاکستان اورافغان طالبان کو ایک پیج پر متصور کرتے آرہے ہیں حالانکہ پاکستان اس الزام کی بھرپور تردید کرچکا ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے زیر اثر نہیں ہیں ۔امریکہ کو یقین رہا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا منصور اور حقانی نیٹ ورک کے امیر سراج الدین حقانی کی چابی پاکستان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمتی قوتوں کا درجہ رکھنے والی مذکورہ تنطیموں سے امریکہ امن مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے لیکن طرفین میں اعتماد بحال نہ ہونے کے باعث طالبان اور حقانی نیٹ ورک امریکہ کو کڑا وقت دینے سے گریز نہیں کرتے۔افغان طالبان نے امریکہ کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ہی ملا منصور کو امیر اور سراج الدین حقانی کو نائب امیر بنایا تھا جس سے دونوں تنظیموں کی قوت میں اضافہ ہوگیا تھا ۔لہذاامریکہ تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک دونوں کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ کرتا آرہا ہے اور پاکستان پر دباؤ بھی اسی وجہ سے بڑھایا جاتا ہے ۔امریکہ کی نظر میں تحریک طالبان افغانستان قدرے کمزور ہوچکی اور قائدانہ انتشار کی شکار ہے۔ملا عمر کے بیٹے ملایعقوب ملا منصور کی قیادت کو قبول نہیں کرتے تھے لہذا اس تحریک میں جو کمزوریاں پائی جاتی ہیں حقانی نیٹ ورک میں اسکے برعکس اتفاق پایا جاتا ہے۔لہذا امریکہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو اسکا مقصد یہی ہے کہ پاکستان میں اثرونفوذرکھنے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے ۔حالانکہ پاکستان نے ضرب عضب کے دوران حقانی نیٹ ورک کی کمر توڑ کررکھ دی تھی اور امریکہ نے پاکستان کی پیٹھ بھی تھپکی تھی۔حقانی نیٹ ورک کو القاعدہ اور افغان طالبان کا اتحادی سمجھا جاتا ہے اور امریکہ نیٹو اور افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے سب سے خطرناک گروپ قرار دیتے ہوئے اسے ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دے چکا ہے۔گزشتہ سال پینٹاگون نیویڈیو بریفنگ میں لیفٹیننٹ جنرل جوزف اینڈرسن کایہ بیان ریلیز کیا تھاکہ طالبان کی طرح حقانی نیٹ ورک میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں اور پاکستان کی جانب سے شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں حقانی نیٹ ورک کی افغانستان کی حدود میں حملے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔لیکن آج امریکہ پاکستان کی کریڈیبلٹی پر سوال اٹھا رہا ہے تو اس میں اسکی اپنی تازہ ضرورتوں کا عمل دخل ہے۔امریکہ کو پاکستان کی سیاست کے بھونچال میں اپنے خادمین کا تحفظ کرنامقصود ہے ۔یہ خادمین اسلام آباد میں ایک بڑے آپریشنل امریکی سفارتخانے کی تکمیل کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ امریکی سفارتخانے میں بڑے کمپلیکس کی تکمیل اسی صورت پرامن طریقے سے انجام تک پہنچ سکتی ہے جب پاکستان میں کرپٹ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا،خادمین امریکہ کو اقتدار میں رہتے ہوئے کرپشن کی عام چھوٹ ہوتی ہے ۔امریکی کمپلیکس کے بارے میں پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ انکشاف کرچکے ہیں کہ امریکہ اسلام آباد میں جاسوسی کا ایک بڑا مرکز قائم کر رہا ہے۔ اسلام آباد کمپلیکس نامی اس امریکی اڈے میں تین سو امریکی انٹیلی جینس کے افسران کے رہنے کی جگہ میّسر ہو گی جوامریکہ کے بعد کسی بھی ملک میں دوسرا سب سے بڑا امریکی اڈہ ہو گا۔ اسلم بیگ کے مطابق امریکہ نے امریکی سفارت خانے کے احاطے میں پچیس ایکڑا مزید اراضی حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں اسلام آباد کمپلیکس قائم کیا جا رہا ہے۔امریکہ پرامید ہے کہ صدر زرداری کے دور میں کمپلیکس میں دو سو سے زائد رہائشی عمارتیں تعمیر کرالی گئی تھیں توکمپلیکس کی بقیہ تعمیر بھی کرپٹ جمہوری نظام میں اسکے خادمین کی بدولت مکمل ہوجائے گا۔