سی پیک کی حقیقت
تقریباً دو سال قبل چین نے پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سی پیک کی صورت میں کرنے کا اعلان کیاتوپاکستان کی موجودہ حکومت نے اس معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا۔ یہی سی پیک اب خطے میں گیم چینجرقرار دیارہاہے۔ اب ایک نظر ذرا تاریخ پرڈالیں۔دو دہائی پہلے چین تاجکستان میں انہی شرائط پر سرمایہ کاری کی تھی جن شرائط پر سی پیک بنایا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ 2009ء میں تاجکستان جب ڈیفالٹ کر گیا تو چین نے سرمایہ کاری واپس کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو تاجکستان کو اپنی گیارہ سو مربع کلو میٹر اراضی چین کو دینا پڑی۔ آج چین کے پچاسی ہزار باشندے وہاں رہ رہے ہیں اور اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اسی طرح جیسے شہنشاہ جہانگیر سر تھامس رو کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر کے خوش ہوا تھا اور تجارتی معاہدہ کو گیم چینجر سمجھا تھا۔ اس تجارتی معاہدے کی رو سے سورت کی بندرگاہ کا مکمل کنٹرول تاج برطانیہ کو دے دیا اور بدلے میں کیا مانگا؟ صرف اپنے محل کیلئے یورپی منڈیوں کی نوادرات۔ شہنشاہ جہانگیر اس تجارتی معاہدے سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے شہنشاہ برطانیہ جیمز ون کو خط لکھا کہ اس تجارتی معاہدے سے جو ’لازوال اورابدی دوستی‘ شروع ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔
شہنشاہ ہند کا خیال تاریخ نے درست ثابت کر دیا یعنی وہ معاہدہ واقعی گیم چینجر ثابت ہوا لیکن ہندوستان نہیں بلکہ انگلستان کیلئے۔ وہ واقعی گیم چینجر ثابت ہوا لیکن ہندوستان کی غلامی کا گیم چینجر۔جب 1612ء میں سر تھامس رو نے ہندوستان میں قدم رکھا تو ہندوستان دنیا کے خوشحال ترین ملکوں میں شامل تھا اور جب ماؤنٹ بیٹن نے 1948ء میں واپسی کا سفر شروع کیا تو ہندوستان دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کیا کرنے جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ شہنشاہ جہانگیر نے اور اس کے بعد آنیوالے کسی بادشاہ نے نہیں کیا۔ اب جبکہ اس گیم کا ایکشن ری پلے سی پیک کی صورت میں ہونے جا رہا ہے۔
سی پیک کے حوالے سے جو کچھ چین پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے، اس میں دوش چین کا نہیں دیا جا سکتاکیونکہ ہر استعماری قوت یہی کرتی ہے۔ اصل مجرم ہمارے حکمران ہیں۔ کمیشن اور پانامہ کمپنیوں کیلئے مشہور ہمارے حکمران خفیہ معاہدوں کے ذریعے نئی غلامی کے بیج بو رہے ہیں۔
حال ہی میں سی پیک کے حوالے سے خوفناک خبریں سامنے آئی۔ پہلی یہ کہ خفیہ معاہدوں کے ذریعے ہماری حکومت چین کو مخصوص علاقے صنعتی زون کیلئے دے رہی ہے جہاں صرف چینی شہری فیکٹریاں لگائیں گے اور جن پر پاکستانی ریاست، عدالتوں، پولیس کی عمل داری نہیں ہوگی۔ دوسری یہ کہ چینی سرمایہ کاری پر چالیس فیصد کی خوفناک شرح سود پر پاکستان کی اگلے تیس سالوں میں 50 ارب ڈالر کے عوض چین کو 90 ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔ چند سالوں بعد ہمیں ہر سال سالانہ 3 سے 4 ارب ڈالر چینی بینکوں کو واپس کرنے ہوں گے۔ چینی لیبر اور چینی خام مال کے استعمال کی خوفناک شرائط سامنے آ رہی ہیں۔
اس سے بھی خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے صرف 25 فیصد زر مبادلہ پاکستان آئے گا اور باقی چین کے اندر ہی چینی کمپنیوں اور بینکوں کے درمیان ہاتھ تبدیل کرتا رہے گا۔ اسی دوران چین کو دھڑا دھڑ پاکستانی تزویراتی اثاثے خریدنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور ان کی شرائط بھی خفیہ رکھی جارہی ہیں یا جو سامنے آرہی ہیں ان پر آزاد ماہرین معاشیات کے حواس خطا ہو رہے ہیں۔ چین کے 90 ہزار سے زائد باشندے اسلام آباد میں آئیں گے۔ اسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سی پیک سے جو چینج آئے گی ،اسکی قیمت کیا چکانی ہوگی۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔