منٹو: آہ کوچاہیےاک عمراثر ہونے تک

منٹو: آہ کوچاہیےاک عمراثر ہونے تک
منٹو: آہ کوچاہیےاک عمراثر ہونے تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

(عائشہ صدیق )

اک دن معلوم ہوا سعادت حسن منٹو کی زندگی پر فلم بنائی جا رہی ہے۔ منٹو کے ساتھ احساس کا تعلق توشاید ھمیشہ سے ہی موجود تھا مگر اس کی تحریروں سے نا تا جوڑے ابھی مجھے دو سال ہی ہوئے تھے۔ چونکہ تعلق پہلے ہی موجود تھا لہذا تحریریں پڑھنے سے تعلق اور مضبوط ہو گیا۔ ایسے میں منٹو پر فلم سازی کا سنا تو تجسس اور بے قراری نے طبیعت کو آن گھیرا۔ کئ قسم کے سوالات ذہن میں اٹھنے لگے۔ کیا آج کا معاشرہ تبدیل ہو گیاہے ؟ کیا دورِ حا ضر کے لوگ اس کےفحش   کہلائے جانے افسانوں کو دیکھنے کی ھمت رکھتے ہیں؟ کیا اس معاشرے میں اتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ منٹو کو اپنے اندر سمو سکیں؟کیا معاشرے میں اتنی سکت ہے کہ منٹو کی بیان کردہ تلخ حقیقتوں کو برداشت کر سکے ؟کیا پاکستانی فلم سازوں میں اتنی جرات ہے کہ منٹو کی معاشرے کو بے نقاب کرتی تحریروں کو کوئی رنگ دے سکیں؟

ان تما م ترسوالات نے مجھے ایک طرف  بے چین کیا اور دوسری جانب مجھے مجبور کیا کہ میں غور کروں کہ کیا معا شرے کے رویوں میں تبدیلی رونما ہوچکی ہے؟میں بے چینی سے فلم کا انتظار کرنے لگی۔ فلم ۱۱ستمبر کو سینما گھروں کی زینت بنی۔مگر چاہتے ہوئے بھی دیکھنے نا جا سکی۔ تمام تر رکاوٹیں جو کہ ایک مشرقی معاشرے کی لڑکی کو جکڑے رکھتی ہیں مجھے بھی جکڑے ہوئے تھی۔مگرمیرےاندرکے باغی نے گوارا نہ کیا کہ منٹو دیکھے بنا رہو۔ لہذا تمام ترزنجیروں سے خود کو آزاد کرتے ہوئے میں سینما تک پہنچ گئی۔میں جو کہ اپنے کلاس فیلوز کے ہمراہ کہیں کھانا کھانے جاتے ہوئے بھی کتراتی ہوں۔ آج اپنے چند کلاس فیلوز کے ہمراہ منٹو دیکھنے گئی۔جانے سے پہلے میری ایک دوست نے مجھے سمجھاتے ہوہے کہا ۔۔۔۔ــ ’منٹو‘ بہت بولڈ  ہے اور فلم  دیکھنے جانے والوں میں لڑکے بھی موجود ہیں لہذا مت جاؤ۔۔۔۔۔ مگر مجھے جانا تھا۔یوں سمجھ لیجئیے جیسے پیاسا کنوئیں کے پاس جاتا ایسے ہی مجھے جانا تھا مجھے معاشرے کے حقائق کی تصویر کشی دیکھنی تھی۔ یاں جیسے چڑیا تنکا تنکا اکٹھا کر کے گھونسلہ بناتی ہیں ایسے ہی مجھے بھی منٹو کی شخصیت کو اپنے تخیل میں مکمل کرنا تھا۔ مجھے تعلق کو مزید گہرا کرنا تھا۔

منٹوفلم کو نہایت عمدگی سے بنایا گیا تھا۔ اداکاری ، ہدیتکاری، الفاظ کا چناو ،سیٹ ۔۔۔ غرض ہر طرح سے فلم میں مہارت اور محنت نظر آ رہی تھی ۔فلم میرے تخیل میں موجود منٹو کی شخصیت کے تصور کی عکاسی کرنے بہت میں حد تک کامیاب رہی ہے۔ ۔ مگر میری تشنگی ابھی باقی ہے۔ مجھے لگتا منٹو کی زندگی اس سے کہیں زیادہ مسائل اور مشکلوں کا شکار رہی ہو گی۔ ویسے بھی اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگارکو بھلا کوئی ایک فلم میں کیسے قید کر سکتا ہے ؟

منٹو۔۔۔ تمہیں آج لوگوں نے دیکھا ہے۔ منٹو تمہاری آہ کو آج آواز ملی ہے۔ منٹو ساٹھ برس لگے ہیں اس معا شرے کو تمیں آواز دینے میں۔ ہمارے معاشرے کے وہ بنیادی مسائل جن کو لکھنے کی پاداش میں تمہیں فحش نگار کے لقب سے نوازا گیا، آج وہی تحریریں لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ منٹو آج تم لوگوں تک پہنچ رہے ہو۔۔مگر ابھی آہ کا اثر ہونا باقی ہیں۔ آج بھی سکینہ ، نیتی ،سوگندھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ آج بھی کوئی سکینہ اپنوں کے ہاتھوں عزت پامال کرواتی ہے اور چپ چاپ ہی مر جاتی ہے۔ آج بھی کوئی عورت اگر معاشرے میں خود کفیل ہونا چاہتی ہے تو لوگ اس کو نیتی کی طرح مار دیتے ہیں۔ عصرِ حاضر کی عورت بھی سوگندھی کی طرح محبت کے لیے ترستی ہے اور مرد جو کہ تو حسن اور ہوس کے پوجاری ہے۔ طوائف ہو یا تہزیب یافتہ معاشرے کی عورت کے مسائل آج بھی ایک جیسے ہیں۔کہیں جسم پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے تو کہیں جذبات پر۔آج بھی یہ معاشرہ عورت کواپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق نہیں دیتا۔

منٹو آج کا معاشرہ بہت خوش ہے کہ تم پر فلم بنی ہے۔ھم جدید دور میں قدم رکھ رہے ہیں۔میڈیا آزاد ہے۔ ہر ایک کو کھل کر خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے۔ ہاں منٹو کسی حد تک آج یہ ممکن ہے۔مگر معاشرہ آج بھی اسی درندگی اور پستی کا شکار ہے۔ آج کا مرد اگر تمہیں پڑھتا ہے تو کہتا ہے کہ منٹو میرا مرشد ہے۔ تمہاری تحریروں پہ سر دھنتا اورکہتا ۔۔۔ منٹو نے بہت خوبصورتی سے معاشرے کے کالے کرتوت بیان کیے ہیں ۔۔ مگر اپنی معاشرتی اور سماجی دنیا میں آج بھی مرد کا ذہن اسی غلاظت میں مقید ہے۔ آج بھی یہ عورت کی عزت کے رکھوالے موقعہ ملتے ہی اس پر جھپٹتے ہیں، کاٹتے ہیں  یا بےجا پابندیاں لگاتے ہیں۔

آج منون مٹی تلے شائد تمہارے دماغ میں اٹھنے والے رموزواوقاف کو سکوں ملا ہو۔جو جھٹکے تم نے تمام عمر سہے ہیں شائد ان کا اثر زائل ہو رہا ہو۔مگر ان جھٹکوں کی قیمت ادا ہونا ابھی باقی ہے۔ تحریروں کا دل و دماغ میں اترنا ابھی باقی ہے۔ منٹو شاید مزید ساٹھ برس لگیں تمہاری آہ کو اثر ہونے تک۔۔۔ ۔

مزید :

بلاگ -