طب دشمنوں کا انجام
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کرلیجئے، ایک آدھ دور کو چھوڑ کر آپ کو ہر حکومتِ وقت طب سے بے اعتنائی برتتی نظر آئے گی ، حالانکہ قیامِ پاکستان سے قبل بانیانِ پاکستان بالخصوص قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اسلامی علوم وفنون اور مسلمانوں کے علمی ورثے کو ترقی دی جائے گی ۔ انہوں نے طب اسلامی ( یونانی) کو بھی انہی علوم میں شمار کیا تھا اور اس کی سرپرستی کا وعدہ کیا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اورشہید ملت لیاقت علی خاں نے نہ صرف طب اسلامی کی افادیت کو تسلیم کیا تھا بلکہ اس کی ترویج و ترقی کے واضح اعلانات بھی کئے تھے۔ مزید برآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اپنے علاج معالجہ کے لئے طبی ادویات پر ہی انحصار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہی ادویات کو استعمال کیا ۔ شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشیؒ کو ان کا معالج ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ برِ صغیر پر انگریزی سامراج کے غاصبانہ تسلط کے دوران سرکاری طور پر انتہائی معاندانہ ، جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے باوجود ہمارے اسلاف کا یہ عظیم ورثہ اپنی افادیت اور حکیم اجمل خانؒ کی بیدار مغز قیادت کے تحت اطبائے ہند کی جدوجہد کے باعث زندہ و سلامت رہی ۔
اس حقیقت سے بھی آنکھیں چرا نا کسی کے لئے ممکن نہیں کہ آج پوری دنیا تیزی سے قدرتی طریق علاج کی طرف پلٹ رہی ہے۔ طب جدید کے مضرات اور قدرتی ادویہ کی شفائی تاثیرات نے آج کے عالم انسانیت کو ایک بار فطرت کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے اور طبی طریق علاج عالمی مقبولیت حاصل کرتا رہا ہے۔
ماضی وحال کے ان حقائق سے آنکھیں چرانا کسی بھی طور، کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ۔ آج اقتدار کے ایوانوں میں برا جمان مسلم لیگی اگر اپنی ہی جماعت کے بانیوں کا کسی بھی درجے میں احترام اپنے دلوں میں رکھتے ہوں تو انہیں ان بانیوں ( جن میں مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاںؒ بھی شامل تھے) کے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے اعلانات اور وعدوں کا پاس کرنا چاہیے ۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا جاہیے کہ جنرل ضیاء الحق شہید کے دورمیں جب میاں محمد نوازشریف پنجاب کے وزیرا علیٰ تھے تو ان ہی کے عہد میں پنجاب کے85 سرکاری ہسپتالوں میں شعبۂ طب قائم کرکے ، عوام کے لئے ان کے مقبول ترین طریق علاج سے استفادے کے مواقع پیدا کئے گئے تھے۔ منصوبے کی رُو سے ان مواقع میں اضافہ کیا جانا تھا اور تین سو کے لگ بھگ ہسپتالوں میں شعبہ طب کا بتدریج قیام عمل میں آنا تھا ، لیکن بدقسمتی سے حکم رانوں نے ترقی کی بجائے رجعت قہقری کو اپنا ہدف بنا لیا ۔ ان کے موجودہ عہد میں تو طب دشمنی کے نت نئے ریکارڈ قائم کئے جانے لگے۔ کبھی طبی دوا ساز اداروں پر چھاپے ، طبی ادویات کو جعلی قرار دینے کی مہم ، ان دوا ساز اداروں کی بندش اور ان کے مالکان کی گرفتاریوں جیسے بدترین اقدامات کے بعدسرکاری ہسپتالوں میں قائم شدہ شعبۂ ہائے طب کو ختم کرنے کی بار بار کوششیں ، یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور کے ’’کارنامے‘‘ ہیں۔
طب کے خلاف یہ اقدامات کسی بھی سازش سے کم نہیں ہیں ، اور یہ اس لئے کئے جاتے ہیں کہ طب و اطباء اور ان کے امور ومسائل ان لوگوں کے سپرد ہیں جو نہ صرف یہ کہ طب کی مبادیات و اساسات سے ناآشنا ہیں بلکہ طب دشمن ہونے کی شہرت رکھتے ہیں ۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہی لوگ طب کے حوالے سے کرتا دھرتا رہے ہیں اور انہوں نے اس طریق علاج کو ختم کرنے کو اپنا ہدف قرار دیئے رکھا ہے ۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ
1۔ طبی امور و معاملات ، خواہ وہ قانونی ہوں یا انتظامی ، تعلیمی ہوں یا فنی و تحقیقی ، وہ طبی ماہرین کو تفویض کئے جائیں اور انہیں ہی ان کا ذمہ دار و نگران بنایا جائے۔
2۔ اس مقصد کے لئے وزارتِ صحت میں طب کا مکمل ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے اور اس کی ابتداء فوری طور پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے خالی منصب پر کسی اہل طبیب کی تقرری سے کیا جائے ۔ بعدا زاں پورے ڈائریکٹوریٹ کو وجود پذیر کیا جائے ۔
3۔ سرکاری ہسپتالوں میں شعبۂ طب کو ڈائنگ کیڈر قرار دیئے جانے والے نوٹیفکیشن کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور خالی مناصب پر اہل اطباء اور معاون عملے کی فی الفور تقرری کی جائے ۔
4۔ طب کے لئے الگ وزارت قائم کی جائے جس کے بنیادی اہداف طب کی ترویج وترقی ، اس کے تعلیمی معیارات کو بہتر کرنا اور اس کے علمی و عملی پہلوؤں کو طبی اصول و ضوابط اور مبادیات و اساسات کی روشنی میں عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور قدرتی طریق علاج کی طرف تیزی سے پلٹتی ہوئی دنیا میں پاکستان کو امامت و قیادت کے منصب پر فائز کرنا ہوں۔ یہ وزارت انتہائی اہل ، مخلص اور دیانت دار طبیب کے سپرد کی جانی چاہیے۔
ہم متوقع ہیں کہ مشکلات میں گھری ہوئی حکومت طب و اطباء دشمنی کے رویے اپناتے ہوئے اپنے لئے مزید مشکلات جنم دینے سے گریز کی راہ اختیار کرے گی۔ ہم اپنے طو رپر اس یقین سے سرشار ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک یہ فن صرف اپنی افادیت کے باعث زندہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسی کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لئے یہ فن ان شاء اللہ العزیز زندہ وتابندہ رہے گا اور انسانیت اس سے استفادہ کرتی رہے گی۔ طب دشمن عناصر ماضی میں بھی خائب وخاسر رہے اور اب ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ موجودہ طب دشمن بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔