ٹرمپ اور سعودی فرمانروا نے نواز شریف کو نظر انداز کیوں کیا؟

ٹرمپ اور سعودی فرمانروا نے نواز شریف کو نظر انداز کیوں کیا؟
ٹرمپ اور سعودی فرمانروا نے نواز شریف کو نظر انداز کیوں کیا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی صدر کا پہلادورہ اِس اعتبار سے تاریخی ہے کہ پہلی دفعہ کسی بھی امریکی صدر نے سعودی عرب کے دارا الخلافہ میں پچاس سے زائد مُسلم ممالک کے سر براہان سے خطاب کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ مُسلم ممالک کو دہشت گردی میں ملوث عناصر کو نکال کر باہر پھینک دینا چا ہئے۔ امریکہ اسلام کا مُخالف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ لیکن تمام مُسلم ممالک کو بھی ہماری مدد کرنی چاہئے۔ امریکہ تمام ایسے ممالک پر نظر رکھے ہوئے ہے جو اِس خطہ کے امن کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں۔ ایران دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ایران دوسرے ممالک میں دہشت گردی کروانے کے لئے دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کرتاہے۔ جو کہ امریکہ اور تمام ایسے ممالک کی رائے کے خلاف ہے جو کہ امن پسند ہیں۔ ہم ایران کو ایسی بد معاشی کرنے نہیں دینگے۔ لیکن مُسلم ممالک کو اپنی حفاظت کرنے کے لئے امریکہ پر انحصار کر نا بند کرنا ہوگا۔
اِس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے پہلے بیرونی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا۔ اِس لحاظ سے سعودی عرب کو امریکی کی نظر میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ کے صدر اپنے دورے کا آغاز تل ابیب سے بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے مُسلم ممالک کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے طور پر ریاض کو مُنتخب کیا اور سعودی عرب کو میزبانی کا شرف بخشا۔ جس سے یہ بات کھُل کر سامنے آگئی کہ سعودی عرب صرف تیل کی پیدوار کے اعتبار ہی سے اہم نہیں بلکہ سعودی عرب کو سیاست کی دُنیا میں بھی کلیدی پوزیشن حاصل ہے۔ خاص کر اسلامی اور عرب ممالک میں۔
امریکہ نے مُسلم ممالک میں اپنی ساکھ اور اہمیت کو قائم اور بحال کرنے کے لئے ہمیشہ سعودی عرب کو استعمال کیا ہے۔ امریکی صدر کے صدراتی حُکم سے سات ممالک کے باشندوں پر ویزے کی پابندی عا ئد کرنے کی وجہ سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکہ کے اندر اور دوسرے مُسلم ممالک میں شدید تنقید کی جار ہی تھی۔ جس سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی امیج کافی حد تک مسخ ہوا ہے۔ اپنے سیاسی امیج کو بحال کرنے اور مُسلم ممالک کی ہمدردیا ں حاصل کرنے کے لئے امریکی حکام نے امریکی صدر کا دورہ ترتیب دیا گیاتھا۔ سعودی عرب کو بھی اپنی حفاظت کے لئے امریکہ کی آشیر باد کی ا شد ضرورت ہے۔ کیونکہ سعودی عرب ایران کی خطہ میں مداخلت سے پریشان ہے۔ خاص کر ایران کی یمن میں حوثیوں کی مدد نے سعودی عرب کے حکمرانوں کی نیندیں اُڑا رکھی ہیں۔ اُن کو اپنے دفاع کے لئے بڑی سیاسی مُلک کی سپورٹ کی از حد ضرورت ہے۔ جو کہ سعودی عرب کا جنگ چھڑجانے کی صورت میں موثر دفاع کر سکے۔ امریکہ پہلے بھی ریاض سے کویت کو آزاد کروانے کے جنگ لڑ چُکا ہے۔ لہذا تعاون کو مزید بڑھانے اور ایران کو خبر دار کرنے کے لئے امریکی دورے کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔ اِس کانفرنس سے دونوں ممالک اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکہ سے ساڑھے تین سو کروڑ ڈالرز کے معاہدے کئے گئے ہیں۔ اتنی خطیر رقم کے معاہدے پہلی دفعہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان طے پائے ہیں۔ جس سے امریکہ کو مالی طور اور سعودی عرب کو سیاسی اور دفاعی طور پر فائدہ پہنچے گا۔اِس کانفرنس سے خلیجی ممالک کو بھی راحت مِلی ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی خصوصی طور ہر مدعو کیا گیا تھا۔ اِس دعوت نامے کی کافی حد تک تشہیر بھی کی گئی تھی۔ جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ امریکہ کی نئی انتظا میہ اور سعودی عرب پاکستان کو سیاسی طور پر نہا یت اہم مُلک تصور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کے کہنے پر بے پناہ تعاون کیا ہے۔ اپنے فوجیوں کی زندگیاں قربان کی ہیں۔ لہذا پاکستان کی سیاسی قیادت کو یہ اُمید بجا طور پر تھی کہ پاکستان کی قُربانیوں کو یاد رکھا جائے گا اور ہمارے مُلک کے وزیر اعظم کو مُلاقات کے لئے خاص طور وقت دیا جائے گا۔ یہ بھی خیال تھا کہ چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کے سعود خاندان کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں ۔ اِس لئے توقع تھی کہ میاں نواز شریف کی مُلاقات امریکی صدر سے پہلی فُرصت میں کروائی جائے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اسلامی فوج کی سر براہی کے لئے جنرل راحیل کی خدمات کو سعودی درخو است پر دینا منظور کیا ہے۔ اِن حالات کو
مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر شخص کو امید تھی کہ میاں نواز شریف اِس محفل میں خاصی اہمیت کے حامل مہمان ہونگے ۔ لیکن نواز شریف اور اُنکے وفد کی اُمیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب سعودی عرب نے اُنکے استقبال کے لئے ائر پورٹ پر گورنر کو بھیجا۔ امریکی صدر نے اُنکو ملنا تک گورا نہیں کیا اور نہ ہی میاں نواز شریف سے تقریر کروائی گئی۔ اِس شمولیت سے پاکستان کو سیاسی طور پر کُچھ حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ جو بھی عزت و تکریم پاکستان کو ملنی چاہئے تھی وُہ بھی نہیں مِل سکی۔ امریکہ کے صدر نے پاکستان کی افغانستان میں خدمات کو سراہنا تو کُجا ، اُنکا اعتراف کرنا بھی مُناست نہیں سمجھا۔
اطلاعات کے مُطابق،امریکہ کے صدر نے تمام تر مُصروفیا ت کے باوجُود افغا نستان کے صدر جناب اشرف غنی سے مُلاقات کی ہے۔ سعودی اور امریکہ کے سرد رویئے پر پردہ ڈالنے کے لئے میاں نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امُور جناب سر تاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کو اِس کانفرنس سے زیادہ اُمیدیں نہ تھیں۔ حالانکہ میاں نواز شریف کو اِس کانفرنس سے بہت ساری اُمیدیں تھیں جو کہ پُوری نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے اپنی غصے کا اظہار پاکستان سفیر کو حُکم دے کر کیا ہے کہ سرکاری طور پر امریکہ کو پاکستان کی قرُبانیوں کے بارے میں مُطلع کیا جائے۔تاہم اِس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ امریکہ پاکستان کی اہمیت سے بے خبر ہے۔ صرف اتنا ہُوا ہے کہ امریکہ کے صدر اپنی مُصروفیات کی بناءپر پاکستانی وزیر اعظم سے نہیں مِل سکے۔افسوس اِس بات کا ہے کہ میاں صاحب کی تقریر کا مسودہ اُنکی جیب میں ہی پڑا رہا اور بقول عمران خاں نواز شریف صاحب کے ساتھ سعودیہ اور امریکی انتظامیہ نے بارھویں کھلاڑی جیسا سُلوک روا رکھا ہے۔ جو کہ با عث ندامت ہے۔ پاکستانی عوام کے جذبات کو اِس سرد روئیے سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔امریکہ اور سعودی عرب نے اپنے سرد روئیے سے پاکستان کی حکومت خاص کر شریف خاندان کو اُنکی اُوقات یاد دلادِی ہے۔ امریکہ نے یہ باور کروایا ہے کہ پاکستان کے بغیر بھی وُہ اپنے مُفادات حفاظت کر سکتے ہیں۔ جن سے اُن کو خاص مطلب ہوتا ہے اُن سے مُصرفیات کے باوجود بھی وُہ مِل لیتے ہیں۔ پاکستان کے لئے یہ سبق ہے کہ سعودی عرب کے لئے ایران سے تعلقات کو بگاڑنا راست قدم نہیں ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کار کردار ادا کرنا چاہئے۔ سعودی عرب کو جنر ل راحیل کی خدمات دے کر ہم نے طرفداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جو کہ سیاسی طور پر مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران نے اسلامی کانفرنس کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہو ئے کہا ہے کہ سعودی عرب نے امریکی صدر کو سیاسی رشوت دِے کر خریدنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی اپنے مُفاد کے لئے کُچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو دوسرے ممالک سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور خُود انحصاری کی پالیسی کو مزید مستحکم کرنا ہو گا۔ اِسی میں بطورقوم ہماری بھلائی ہے۔ چا پلوسی سے کام نہیں چلے گا۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -