گڈ بائے موئن جو دڑو

گڈ بائے موئن جو دڑو
گڈ بائے موئن جو دڑو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر : ببرک کارمل جمالی
فلم کوئی بھی ہو، میرے لیے مار دھاڑ کے مناظر دیکھنا بالکل ہی ناقابلِ برداشت ہو جایا کرتے ہیں۔ مگر فلم موئن جو داڑو میں بقا کی جدوجہد کے دوران ہیرو کو دو سانڈ جیسے، چنگیزی چہروں والے وحشیوں سے تنہا لڑتے، بار بار بے دم ہو کر گرتے اور پھر سے اٹھ کر لڑتے دیکھاتو میرے ذہن پر سندھ پر حملہ آور حکمرانوں کی تصویر چھا گئی۔
فلم موئن جو دڑو دیکھی تو سوچا اب یہ عجوبہ دوبارہ دیکھنا چاہئے کیونکہ فلم نے اسکا تاریخی زاویہ مجھ پر آشکار کردیا تھا۔ ہم نے کھٹارہ بائیکس نکالیں آٹھ دوستوں کے ساتھ موئن جو دڑو کی طرف چل پڑے۔
موئن جو دڑووادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔جبکہ 160 کلو میٹر جعفرآباد سے فاصلے پر ہیں۔ یہ وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے ۔یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناءپر ختم ہوگیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔
چلتے چلتے وہ سڑکیں دیکھیں جو دور میں تعمیر کرائی گئی ہیں لیکن وہ بھی اب موئن جودڑو کیطرح بربد ہوچکی ہیں۔ اربوں روپے لاڑکانہ سے موئن جو دڑو تک روڈ بنانے کیلئے دیئے گئے تھے ،کون کھاگیا؟ شاید موئن جودڑو کی بدروحیں؟ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔
ہمارا سفر کچھ اسطرح شروع ہوا ۔بائیکس کو تیل سے بھر کر جعفرآباد سے شہداد کوٹ ، قمبر سے لاڑکانہ اورلاڑکانہ سے موئن جو دڑو کی سر زمین تک پہنچتے پہنچتے تین گھنٹے لگ گئے اور آدھا گھنٹہ سندھ پولیس کو کاغذات دیکھاتے دیکھاتے اور خرچی دیتے گزرا کیونکہ دو بائیکس کے کاغذات جو نہ تھے ۔
موئن جو دڈو کے مین گیٹ پر پہنچ کے ہم نے اندر داخل ہونے کی ناکام کوشش کی مگر اوقاف والوںنے ہمیں گھیر لیا۔” بھائی اندر جانے کے ٹکٹ کے 20 روپے دو پھر اندر جاﺅ“
ہم ٹھہرے آٹھ بندے اسلیئے ہم نے دو سو روپے انکو دئےےتو انہوں کہا” بھائی باقی 40 روپے ہماری خرچی “ہم دوستوں نے خاموشی اختیار کی اور بائیک کے ساتھ باغ موئن جو دڑو میں داخل ہوگئے اور بائیک اسٹینڈ والے کو تھما دیے ۔ اندر ایک گائیڈ کو تلاش کرنے لگے تو ایک ایسا گائیڈ ملا جس نے ہمیں بتایا کہ وہ وزٹ کرانے کے 5ہزار روپے سے کم نہیں لے گا۔ ہم سب دوستوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سب کے پاس پانچ ہزار تھے ہی نہیں تو ہم نے گائیڈ کے بغیر اس عجوبے کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔لہذا آدھے گھنٹے تک موئن جو دڑو کو دیکھ دیکھ کر تھک گئے ۔اسی دوران کچھ گورے آ پہنچے۔ لمبے لمبے بوٹ بڑے سے قد اور سرخ سرخ چہرے کے ساتھ اس سر زمین پہ گھوم رہے تھے ، ہم سے پوچھا ”کیا یہاں کوئی گائیڈ ملے گا“
ہم نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں یس کہااوران کو گائیڈ کے پاس لے گئے ۔ان لوگوں نے آپس میں رقم طے کی۔ ہم نے اس گائیڈ کو کہا” دیکھو ہم نے تمہیں کلائنٹ دئےے ہیں اب ہم بھی ساتھ ہوں گے “اس طرح ہم دوبارہ موئن جو دڑو کی وادی میں ایک لشکر نما صورت میں داخل ہوگئے جیسے اس شہر کے مالک ہی ہم تھے۔گائیڈ نے کچھ اس طرح موئن جو دڑو کا تعارف کیا۔
1921ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ جبکہ موئن جو دڑو کی کھدائی 1922 میں کی گئی۔ موہنجودڑو میں قلعہ میںاصل شہر ایک منفرد اور ممتاز حثیت رکھتا تھا، جس کے ارد گرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر اور قلعے کے درمیان ایک واضح خلا ہے۔ ہوسکتا ہے قلعہ کے ارد گرد وسیع اور گہری خندق ہو۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔ ”یہاں پہ موجود غسل خانے تھے جہاں لڑکیاں ہر روز نہانے آتی تھی “گائیڈ نے ایک تالاب نما نشان کی طرع اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
گائیڈ نے ایک طرف اشارہ کرتے کہا کہ یہاں گھر ہوتے تھے ۔ان میں سے بعض گھروں میں کمروں میں کے اندر اینٹوں سے کھڈیاں بنی ہوئی ہےں۔ جس میں سوراخ دار برتن ہے۔ جو خمدار راستے سے زمین دوز نالی سے ملحق ہے۔ یہ فلیش سسٹم لیٹرین ہے۔ خمدار راستے کے باعث برتن میں پانی کھڑا رہتا تھا، مگر بعض گھروں میں سیدھا فلیش ہوجاتا تھا۔ گھر سے گندے پانی کے نکاس کے لئے دیوار میں سوراخ بنایا جاتا تھا اور باہر زمین دوز نالیوں کے ذریعے غلاظت شہر سے باہر چلی جاتی تھی۔یہاں کی سب سے اہم پیداوار گندم ہوتی تھی گندم کو صاف کرکے ان کو ایک چکی میں آٹا بنایا جاتا تھا یا اکثر گندم کو سادہ پانی میں ابال کے کھلایا جاتا تھا۔
موہنجودڑو سے 1200 سے زائد مہریں ملی ہیں۔ اوسط درجہ کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ شکلیں ہیں۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں۔ مثلاً ایک سنگھا۔ یعنی ایک ایسا گھوڑا جس ماتھے پر سینگ ہے۔اچانک گائیڈ نے بلی دیکھی تو بتایا” گندم کے گودام کو چوہوں سے بچانے کیلئے یہاں بلیاں بہت پالی جاتی تھی“
موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح زوال پذیر ہواتھا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست رہا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارالحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا۔اسی طرح ہم نے موئن جو دڑو کو مفت میں دیکھ لیا۔ موئن جو دڑو کے آثار بہت پرانے سہی مگر جس طرح فلم میں کہا گیاتھا کہ ”جس ہوا میں کھوٹ کی بو ہو میں وہاں سانس نہیں لے سکتا “اسی طرح مجھے اس ہوا میں کھوٹ کی بو آ رہی تھے۔ کیا واقعی ایسے ظالم لوگ تھے جنہوں نے اس دھرتی پہ اتنے ظلم کیے کہ برباد ہو گیا۔
موئن جودڑو دیکھ چکے توہم بھی گوروں کے ساتھ باہر نکلے تو انہوں نے پکارا” گڈ بائے موئن جو دڑو“ ....ہم نے بھی انکی تقلید کی اوریہ الفاظ بولنے سے پہلے میرے زبان پہ یہ الفاظ آ گئے ”اے سندھ اماں۔۔ لکھ لکھ تھورا کہ تو نے ہم باہر سے آنے والوں کو اپنے سینے سے لگایا۔ ہماری نسلوں کو اپنی رگِ جاں میں آباد کیا۔ ہم نے تیری چھاتیوں کے رزق سے اپنی نسلوں کی پرورش کی۔ تیری میٹھی بولی کی تاثیر نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم خود کو سندھی کہیں اور تیری بولی میں داستانیں رقم کریں اور شعر کہیں۔ گو کہ تو آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے مگر ہم جتنے بھی ہیں، جہاں جہاں سے بھی آئے ہیں، جو بھی زباں ہم بولتے ہیں، ہم تیرے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے تو ہماری ہے۔
لکھ لکھ تھورا سندھ اماں!
لکھ لکھ تھورا سندھ اماں!

مزید :

بلاگ -