متحدہ مجلس عمل کیا کچھ کر پائے گی  

متحدہ مجلس عمل کیا کچھ کر پائے گی  
متحدہ مجلس عمل کیا کچھ کر پائے گی  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 متحدہ مجلس عمل کا قیام ریاست پاکستان کو بانی اسلام اور بانی پاکستان کے نظریہ اسلامی و فلاحی مملکت کی عملی صورت دینے کے لئے ہوا۔ یہ مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں کا مشترکہ ایک سیاسی اتحاد تھا،جو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور امریکانوازی کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے 2002ء میں بنایا گیا تھا۔اس اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان،تحریک جعفریہ پاکستان ،جمعیت علمائے اسلام (س)،جمعیت اہل حدیث ، جماعت اسلامی پاکستان اورمتحدہ دینی محاذ شامل تھے۔

 2002ء میں پرویز مشرف کے خلاف بھرپور انداز میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے دینی سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کی 342نشستوں میں سے 63نشستیں حاصل کرکے پارلیمنٹ کی تیسری بڑی جماعت ثابت ہوئی۔جس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے تین نشستوں کے علاوہ صوبے کے تمام قومی اسمبلی کے نشستیں،صوبہ سندھ 5،صوبہ پنجاب میں 3 اور صوبہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے 6 نشستیں متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کو ملیں۔ اسی اتحاد نے سینیٹ کی100 میں سے 6 نشستیں بھی حاصل کیں۔2002 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ملکی سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل نے اپنا اپوزیشن لیڈر ،خیبرپختونخواہ اور صوبہ بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل نے اپنی حکومت بنائی۔ 2005ءکےکراچی میں بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل میں شامل دو بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے،جس کے بعد 2008میں متحدہ مجلس عمل کا یہ اتحاد باقاعدہ ٹوٹ گیا۔اتحاد کے ٹوٹنے کے بعدمتحدہ مجلس عمل میں شامل بڑی جماعت جماعت اسلامی نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور جمعیت علماء اسلام نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی جماعت کے ساتھ حکومتی اتحاد کیا۔بعدازاں 2013ء کے الیکشن سے پہلے بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے مہم شروع کی گئی لیکن یہ مہم ناکام رہی اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان کے علاوہ کوئی دینی سیاسی جماعت الیکشن میں قابل قدر کامیابی حاصل نہ کرپائی۔2018 کے انتخابات سے پہلے ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے دینی سیاسی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ چنانچہ اکتوبر2017میں اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام نے متحدہ مجلس عمل میں شامل دینی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس بلایا ،جس میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے 6رکنی اسٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی۔متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے دوسرا اجلاس 9نومبر کو جماعت اسلامی کے مرکزی ہیڈکواٹر منصور ہ لاہور میں ہوا،جس میں6دینی جماعتیں جماعت اسلامی، جمعیتہ علمائے اسلام،فضل الرحمان، جمعیتہ علمائے پاکستان۔ نورانی، مرکزی جمعیتہ اہلحدیث، جمعیتہ علمائے اسلام سمیع الحق اور اسلامی تحریک شامل ہوئیں۔اس اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کواصولی طور پر بحال کرنے اور مستقبل میں متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور دسمبر میں کراچی میں باقاعدہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے اعلان کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

راقم نے 18نومبر کووصال اردو  پر اپنے ہفتہ وار ٹی وی ٹاک شو "بات چیت" میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو موضوع بحث بنایا۔جس میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جمعیت علماءاسلام (س)،مولانا سمیع الحق ،جمعیت علماء اسلام(ف) سے سنیٹر حافظ حمداللہ،جماعت اسلامی سے لیاقت بلوچ،اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمداحمد لدھیانوی اور مذہبی سکالر مولانا زاہد الراشدی کو مدعو کیا۔مولانا سمیع الحق اور لیاقت بلوچ عین وقت پر پروگرام میں شرکت نہ کرسکے،تاہم باقی مہمانوں نے متحدہ مجلس عمل کے مستقبل کےحوالے سے دلچسپ گفتگو کی،حافظ حمداللہ سے جب پوچھا کہ متحدہ مجلس عمل میں  6دینی جماعتوں کے علاوہ باقی دینی جماعتوں کو کیوں شامل نہیں کیا جارہا؟کہنے لگے ابھی متحدہ مجلس عمل کا پہلا مرحلہ چل رہاہے،جس میں ماضی کی جماعتیں شامل ہوئی ہیں،اگلے مرحلے میں جن دینی جماعتوں کی متحدہ میں شامل ہونے کی خواہش ہوگی ،انہیں شامل کیا جائے گا۔مولانا احمدلدھیانوی سے جب سوال کیا کہ آپ متحدہ مجلس عمل میں کیوں شامل نہیں ہوتے؟کہنے لگے کہ ہمیں نہ پہلے شمولیت کی دعوت دی گئی اور نہ اب دی جارہی ہے۔مولانا زاہد الراشدی سے جب پوچھا کہ 70سال گزرگئے کہ دینی جماعتیں متحدکیوں نہیں ہوتیں؟کہا ایجنڈا الگ الگ ہوتاہے،اس لیے جتنی جماعتیں کسی ایک ایجنڈے کو فالو کرلیں تو متحدہوجاتی ہیں۔

 بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دینی جماعتوں کا اتحاد ناگزیر ہے،مگر افسوس 70سال سے اب تک کوئی مؤثر اتحاد دینی جماعتوں کی طرف سے دیرپا ثابت نہیں ہوسکا۔متحدہ مجلس عمل کا ایک اتحاد 70سالوں میں سے ایسا بنا تھا جس سے قوم کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگر متحدہ مجلس عمل بھی ان توقعات پر پورا نہ اترسکی۔اب جب کہ ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے تگ ودو جاری ہے۔ایسے میں متحدہ مجلس عمل میں شامل دینی جماعتوں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا بہت ضروری ہےاور صرف 6 دینی جماعتیں ہی نہیں بلکہ ساری دینی جماعتوں کو متحدہ کرنے کی کوشش کرنے چاہیے ۔ کیوں کہ عوامی حلقوں میں ایک طرف متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو 2002 کی متحدہ مجلس عمل سے تشبیہ د ی جارہی ہے تو دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کو مردہ گھوڑا قراردیاجارہاہے۔ یہ اعتراضات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ متحدہ مجلس میں صرف 6 دینی سیاسی جماعتیں ہی کیوں شامل ہیں،دیگر دینی سیاسی جماعتوں جیسے اہلسنت والجماعت،تحریک لبیک یارسول اللہ،ملی مسلم لیگ وغیرہ کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جارہا؟بعض اسلام پسندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ مجلس عمل اپنے پہلے دور میں پرویز مشرف کے دین مخالف آمرانہ فیصلوں کے خلاف خاطر خواہ کا م کرسکی اور نہ لال مسجد جیسے سانحے کورکواسکی ،ا یسے ہی اب بھی متحدہ مجلس عمل عملا کوئی اہم کارکردگی نہیں دکھا پائے گئی،اور دینی سیاسی جماعتوں کا یہ جوڑ توڑ محض اقتدار اور مفادات کے لیے کیا جارہاہے۔سچی بات یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کے بعد متحدہ مجلس عمل کا مستقبل زیادہ  روشن نظر نہیں آرہا۔اگرمتحدہ مجلس عمل بحال بھی ہوجائے تو اختیارات  کی تقسیم پرعدم اتفاق ، سیاسی مفادات کا ٹکراؤ ،بعض نادیدہ قوتوں کی مداخلت متحدہ مجلس عمل کو زیادہ دیر چلنے نہیں دے گی۔

اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ کیا متحدہ مجلس عمل 10سال بعد بحال ہوکر پاکستان کی تمام دینی جماعتوں کا مشترکہ پلیٹ فارم بن پائے گا یا نہیں؟کیا متحدہ مجلس عمل نظریہ پاکستان اوردینی تشخص کی حفاظت کرپائی گی  یا نہیں؟ کیا پاکستان کو لوٹنے والے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف اقتدار اور مفادات سے بالاتر ہوکرمتحدہ مجلس عمل کوئی نیا کارنامہ سرانجام دے پائی گی یا نہیں؟۔

 .

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -