بدترین اہانت کا غلیظ ترین جرم
اسلام کی عمارت جن عقائد پر استوار ہے ، ان میں عقیدۂ توحید و رسالت سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہی نہیں ، پوری کائنات کے خالق ومالک ہیں ۔ انہی نے اس میں موجود ایک ایک ذرے کو وجود پذیر کیا ۔ صرف ہماری دنیا ہی نہیں، انہوں نے ان گنت سیارے تخلیق فرمائے ۔ کرۂ ارض پر انہوں نے لاتعداد مخلوقات پیدا فرمائیں ۔ نباتات و جمادات کو خلقت آشنا کیا ۔ بظاہر یہ دونوں زندگی سے محروم ، لیکن انہیں نشوونما کی صلاحیت سے بہرہ ور فرمایا۔ زندہ وجودوں کی بے شمار انواع میں زندگی کی روح پھونکی اورا ن کی حرکت پذیری کی متنوع اشکال سے انہیں متصف کیا ۔ اللہ جل شانہ نے ملائکہ اور جنات کی بھی تخلیق فرمائی لیکن ان کی صفتِ خلاقی کا شاہ کار انسان ٹھہرا ، اسے احسن تقویم میں پیدا فرمایا اور پھر اسے مسجودِ ملائک بنا ڈالا۔ شیطان اسی انسان کو سجدہ کرنے کے حکم کی عدم تعمیل کے باعث ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ وہ اور اس کے پیرو کار پھٹکارِ خداوندی کے مستحق ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ کی لعنت تا ابد ان کا مقدر بن گئی ۔
اللہ تعالیٰ کے محض ایک حکم کی عدمِ تعمیل اگر مخلوقات میں سے کسی ایک کو ابدی پھٹکار کا موجب بنا سکتی ہے تو ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار تو اس سے کہیں زیادہ سنگین جرم قرار پاتا ہے ، اور اگر کوئی دریدہ دہن نعوذباللہ اس ذاتِ جلیل وکریم کے بارے میں غلیظ ترین زبان استعمال کرے ، ان کے مقرر کردہ شعائر کے بارے میں انتہائی ہتک آمیز کلمات اپنی زبان سے ادا کرے یا لکھے ، یا ان کے گھر بیت اللہ کی تصاویر کے ساتھ اپنی ذہنی وفکری غلاظت منسلک کرکے انہیں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردے تو اس بدبخت کے جرم کی شدت تو تمام حدود وقیود سے ماوراء ہوجاتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مخلوقات میں سے افضل ترین ہستی خاتم النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں ، غیر متعصب غیر مسلموں نے بھی ان کے اس مقام و مرتبہ کو تسلیم کیا ہے۔ اس ہستی پر ایمان لائے بغیر کوئی بھی فرد دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا ، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اس کے ہاں اس کے والد ، اس کی اولاد اور سبھی انسانوں سے زیادہ محبوب نہیں ہوجاتا‘‘
اس اعتبار سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تقاضا محض انہیں نبی تسلیم کرنا ہی نہیں ہے ، پورے عالم انسانیت سے زیادہ ان سے محبت ہی ایمان کی نشانی ہے ۔ یہ نشانی اگر کسی بھی فرد کے ذہن و قلب میں محض جاگزیں ہی نہ ہو بلکہ اس کے رگ وپے میں سرایت کرچکی ہو، اس کی نس نس میں خون کی طرح گردش کررہی ہو تو کیا ایسا فرد اپنی محبوب ترین ہستی کے بارے میں گستاخی کرنا اور اہانت آمیز کلمات استعمال کرنا تو کجا ،کسی اور کی جانب سے کی گئی ایسی دریدہ دہنی کو برداشت کرنے پر بھی قدرت رکھتاہے؟ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات نے کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا۔ بر صغیر کی ہماری اپنی تاریخ بھی غازی علم دین شہید جیسے جرأت و شجاعت اور غیر ت و حمیت سے سرشار عظیم المرتبت لوگوں کی قربانیوں سے جھلملا رہی ہے۔
ایسے میں کیا یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں 95فیصد سے زائد مسلمانوں کے ہوتے ہوئے کوئی خبیث النفس دریدہ دہن اللہ تبارک وتعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی مقدسات و شعائر کے خلاف انتہائی توہین آمیز خرافات بکنے کی انتہا کردے۔ یہ اندوہ ناک المیہ ہمارے ہی ملک میں بپا ہوا ۔ مسلمان گھرانوں میں جنم لینے والے بظاہر مسلمان کہلانے والے کچھ بدباطن ملعون افراد نے اہانتِ خدا و رسول اور مقدسات کی انتہا کردی ۔ ان میں سے ایک لعنتی کردار کا نام سلمان حیدر ہے ، جو اسلام آباد کے کسی تعلیمی ادارے میں تدریس کے نام پر مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا دھندا کرتا ہے ، جبکہ راولپنڈی کے ہی چند اور لوگ اندرون وبیرون ملک بیٹھ کر اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی مقدسات کی بدترین اہانت کا ارتکاب مسلسل کئی سالوں سے کررہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر فرضی اور بے ہودہ ناموں سے بنائے ہوئے ان کے پیجز پر اتنا بھیانک توہین آمیز مواد موجود ہے کہ اسے ایک نظر دیکھتے ہی اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے کا خون کھولنے لگتا ہے ۔ کائنات کے گل سرسبد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ، وہ کسی رذیل ترین فرد کے بارے میں بھی انسان لکھتے اور بولتے ہوئے جھجکتا ہے ، لیکن گندی نالی کے ان ناپاک اور غلیظ ترین کیڑوں نے عالم انسانیت کی مقدس ترین ہستی کے بارے میں یہ کلمات برس ہا برس تک لکھے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق غلاظتوں کے ان ڈھیروں نے یہ ملعون دھندا گزشتہ دس برسوں سے جاری رکھا ہوا تھا ۔ جبکہ ہمارے حکم رانوں ، خواہ وہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں یا ن لیگ (اس لئے کہ یہ بے چاری اب صرف ن لیگ ہی رہ گئی ہے ، اس کا بھی اسلام ، مسلمانوں اورپاکستانیت سے کوئی ناطہ باقی نہیں رہا) سے ،ان کے سمیت پاکستان کے سارے ادارے ہی ، إلا ماشاء اللہ ، بانجھ ہوچکے ہیں ، ان میں پاکستان کے نظریے کی حفاظت کا کوئی داعیہ ہی باقی نہیں رہا ۔ بلکہ اب تو اکثر وبیشتر صورتوں میں یہ اسلام مخالف کاوشوں ، سازشوں اور منصوبوں کی تکمیل کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔
ہماری بدقسمتی کہ اس ملک کی دینی قیادت بھی من حیث المجموع قابل نفرت خوابیدگی کا شکار رہی۔ کسی ایک جماعت نے بھی اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی مقدسات کی بدترین اہانت کے مرتکب لوگوں کے مکروہ و ملعون چہروں سے نقاب نہ سرکایا ، کسی کو تحفظ ناموس رسالت کا خیال تک نہ آیا۔ ایمانی غیرت و حمیت کی موت کے کنویں میں لڑھکتے ہوئے حکم رانوں ، سیاسی ودینی جماعتوں اور اداروں کی اس قابل نفریں حالت میں اگر اس خوف ناک مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنے کی سعادت کسی کے حصے میں آئی تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی تھے۔ انہوں نے غیر ت مند اسلامی سپوت کا کردار نبھایا اور ایک سچے مسلمان کی سی جرأت ایمانی اور اسلامی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے توہین آمیز مواد اور اس پر مشتمل پیجز کے خاتمے کا بیڑہ اٹھالیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے ریمارکس نے جہاں ان کی ایمانی غیرت وحمیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پایاں محبت پر مہر تصدیق ثبت کردی، وہیں ان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ توہین آمیز مواد کے خاتمے کے لئے کوئی سی بھی قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
ہمارے لئے بے اندازہ تکلیف کا باعث یہ امر رہا کہ عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں اس مقدے کی سماعت کے دوران ان کے ریمارکس کو دین سے وابستہ کچھ افراد اور طبقات نے سستی شہرت کے حصول سے تعبیر کیا ، یہ تک بھی کہا گیا کہ چونکہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک کیس زیر سماعت ہے ، اس لئے وہ توہین آمیز مواد کے خلاف آواز بلند کرکے ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں اس امر سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہے کہ جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف پیش کردہ ریفرنس کی کیا حیثیت ہے ، یا اس کا کیا فیصلہ آتا ہے ،ہمیں صرف توہین آمیز مواد کے حوالے سے ان کے طرز عمل اور رویے پر گفتگو کرنا ہے ، اور وہ بلاشبہ اتنا زبردست ہے کہ جسٹس صاحب کی ایمانی غیر ت و حمیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔
جناب شوکت عزیز صدیقی نے توہین آمیز مواد کے خاتمے کا جو عزم بالجزم کیا تھا اور انہوں نے واشگاف الفاظ میں حکومت کو جو احکامات جاری کئے تھے ، بظاہر ان پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے اس حوالے سے دبنگ بیان دینے کے ساتھ ساتھ اقدامات کی ابتداء بھی کردی ہے ، جو یقینی طور پر خوش آئند ہے ،لیکن ہم اسلامیان پاکستان کو درج ذیل نکات پر ضرور غورو فکر کرنا چاہیے ، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ادنیٰ سی رمق بھی ہمارے قلب ونظر میں کہیں جاگزیں ہے تو:
1۔ اسلام کے نام اور لا الہٰ ا لا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرے کی بنیاد پر حاصل کئے جانے والے ملک میں اللہ اور رسولؐ کی بدترین اہانت کا ارتکاب دس سال تک کیوں کیا جاتا رہا اور یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں اور متعلقہ سرکاری ادارے اور ایجنسیاں کیوں خواب غفلت کا شکاررہے؟
2۔ دینی وسیاسی جماعتوں نے اس سنگین مسئلے سے کیوں پہلو تہی کی اور کیوں اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہیں؟
3۔ سوشل میڈیا کو اتنا بے لگام کیوں ہوجانے دیا گیا کہ اسے مسلمانوں کا نام اپنانے والے کچھ بدباطن اور ملعون لوگ اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی مقدسات کے خلاف اپنی فکری اور نظری گندگی سے سال ہا سال تک آلودہ کرتے چلے جائیں ، بالخصوص ایسے میں جبکہ سائبر کرائم کا قانون بھی حکومت نافذ کرواچکی ہے؟
4۔ کچھ عرصہ قبل جب مبینہ طور پر ایجنسیوں نے اہانت آمیز پیجز چلانے والے بلاگرز کو ’’اٹھا‘‘ لیا تھا تو اس وقت انہیں کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچایا گیا؟
5۔ جب ان بلاگرز کو مبینہ طو رپر ’’اٹھایا‘‘ گیا تھا توا ن کی حمایت میں بولنے والے اور ڈیڈ لائن دینے والے سیاست دانوں ، موم بتی مافیا اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کی ایمانی غیرت و حمیت کا جنازہ کیوں اٹھ گیا تھا ؟ اور حکومت نے ان دریدہ دہنوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لئے ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلانے کا راستہ کیوں نہ اپنایا؟
6۔ پانامہ لیکس پر روزانہ جھک مارنے والے حکومتی وزراء و عہدے داران اور ان کے مخالفین نے اہانتِ رسولؐ کے مجرمین کے مسئلے کو کیوں ذرہ برابر اہمیت بھی نہ دی؟
7۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مجرموں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے احکامات جاری کئے تھے ، پھر اہانت رسولؐ کے یہ مرتکب کیسے بیرون ملک فرار ہوگئے ؟
8۔ سلمان حیدر جو اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی مقدسات کے حوالے سے اہانت آمیز مواد اپلوڈ کرنے والا ایک بڑا کردار ہے ، وہ اسلام آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے (اغلباًسرکاری) میں تدریس کا دھندا بھی کرتا ہے ۔ اس نے نئی نسل کے لوگوں کو کس قدرمسموم کیا ہوگا، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، کیا ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ ایسے زندیق اور ملعون لوگ ہمارے نظام تعلیم میں کیوں گھس آتے ہیں اور انہیں نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کیوں کھلی چھٹی دی جاتی ہے؟ کیا ہم مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندوؤں کے کردار اور اس کے بھیانک نتائج کو فراموش کر بیٹھے ہیں؟
9۔ کیا حکومت مستقبل میں اسلامی نظریے کی حفاظت کا کوئی جذبہ اپنے اندر رکھتی ہے؟ کیا وہ ثابت قدمی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شعائر و مقدسات کے حوالے سے توہین آمیز مواد کے خاتمے اور سدباب کے لئے کوشاں رہے گی ؟
10۔ کیا دینی جماعتیں اس سنگین مسئلے کے خاتمے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر پائیں گی؟ اور کیا وہ اس حوالے سے اتحاد ویگانگت کی فضا جنم دینے کے لئے کوشاں ہوں گی؟
یاد رکھیئے ! اگر ہم نے ان نکات اور سوالات پر اب غور نہ کیا اور بدباطنوں کو انجام تک پہنچانے کی سعی نہ کی تو روزِ قیامت ہم اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم۔ ایسے میں ہمارا ابدی ٹھکانہ کیا ہوگا، اس بارے ہمیں اپنی ہی بھلائی کے لئے ابھی فکرمند ہوجانا چاہیے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔