’’سفرنامہ کیلاش ‘‘روحانی سلسلہ کے معروف گدی نشین اور سیاست دان کا ’’مٹتی کافر تہذیب ‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال (قسط نمبر 2 )

’’سفرنامہ کیلاش ‘‘روحانی سلسلہ کے معروف گدی نشین اور سیاست دان کا ’’مٹتی ...
’’سفرنامہ کیلاش ‘‘روحانی سلسلہ کے معروف گدی نشین اور سیاست دان کا ’’مٹتی کافر تہذیب ‘‘ کا آنکھوں دیکھا حال (قسط نمبر 2 )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیر زادہ ثاقب خورشید عالم راولپنڈی کے علاقے’’چونترہ ‘‘کے سب سے بڑے روحانی سلسلہ کے گدی نشین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سیاسی جماعت کے اہم اور فعال عہدے دار ہیں ۔ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹلوں،گلوریا جین،چائے خانہ اور اس جیسی دیگر’’ جدید بیٹھکوں‘‘ میں ملک کے بڑے سیاسی رہنماؤں ،وزیروں ،مشیروں ،نامور صحافیوں ، ٹی وی ٹاک شوز کے میزبانوں اور اہم فوجی جوانوں کے ساتھ ’’سیاست اور ریاست ‘‘کی ان کہانیوں سے پردہ اٹھاتے اور قہقہے بکھیرتے نظر آتے ہیں جو ’’میڈیا ‘‘ریٹنگ اور بریکنگ کی دوڑ ‘‘کے باوجود نشر نہیں کرتا ۔

پیر زادہ ثاقب خورشید عالم پاکستان کے سیاحتی مقامات کی سیر و تفریح کے رسیا ہیں،حالیہ دنوں میں انہوں نے ’’وادی کیلاش ‘‘ کی جنت نظیر وادی کا انتخاب کیا،کئی دنوں تک وہاں کے سالانہ میلے اوربَل کھاتے پہاڑی سلسلوں کا طواف کرنے کے بعد واپس اسلام آباد لوٹے ہیں ۔

’’روزنامہ پاکستان ‘‘ کے لئے   انہوں نے ’’وادی کیلاش‘‘ کا سفرنامہ شروع کیاہے جسے ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے قسط وار شائع کر رہے ہیں ۔’’سفر نامہ کیلاش ‘‘ کی دوسری قسط حاضر خدمت ہے )

بمبوریت

ایون کی حدود سے نکلتے ہی پتھریلا راستہ شروع ہو گیا، خطرناک اترائیوں اور چڑھائیوں پہ جیپ ہچکولے کھاتی منزل کی جانب رواں دواں تھی، پہاڑ کے ہی ایک چھوٹے سے حصہ کو کاٹ کر اسے روڈ کا نام دیا گیا تھا جس پہ جا بجا ’’نوکیلے پتھر ‘‘بکھرے پڑے تھے، بڑی بڑی’’ سیاہ چٹانیں ‘‘بالکل جیسے سر کے اوپر’’ ایستادہ‘‘ تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاہ !!! موت کی تاریکی جیسے ’’سیاہ پتھر‘‘
میں احتیاط سے جیپ کے پہیوں کو ان سے بچاتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رھا تھا ، راستہ اتنا تنگ تھا کہ جیپ کے ساتھ سے دوسری گاڑی توْ کجا کوئی سائیکل سوار بھی نہیں گزر سکتا تھا ۔ نیچے کھائی میں دریائے چترال اپنی پوری طاقت کے ساتھ چنگھاڑتا ہوا بہہ رھا تھا جو کہ اپنی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں اور بھاری بھرکم پتھروں کو تنکوں کی طرح بہا کر ساتھ لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ ذرا سی بے احتیاطی سے جیپ کھائی سے نیچے لڑھک کر دریا میں گر سکتی تھی۔۔

اگر کوئی دوسری گاڑی مخالف سمت سے آ جائے تو اسے راستہ دینے کیلئے اپنی گاڑی کو’’ بیک ڈرائیو‘‘ کر کے تھوڑی کھلی جگہ تک لے جانا کافی مشقت طلب کام تھا تاہم گزشتہ سال’’ فیری میڈو ‘‘کے خطرناک ترین راستے پہ گاڑی چلانے کا تجربہ کام آیا۔ فیری میڈو کا راستہ میری زندگی کا دشوار ترین راستہ تھا ،جس کی نسبت ’’بمبوریت ‘‘جانے والا راستہ اتنا خطرناک محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔
ایک لکڑی کے تختوں پہ مشتمل پل کو عبور کرتے ہی دوبارہ ایک چوکی سامنے نظر آئی جہاں اندراج کے ساتھ ہی مبلغ 40روپے ’’تاوان‘‘ کیلاش لوگوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بحکم ڈپٹی کمشنر ہم سے اینٹھا گیا جو کہ ایک طرح کی بمبوریت میں ’’داخلے کی فیس‘‘ ہے اور یہ ’’فیس ‘‘ہر سیاح سے لی جاتی ہے جبکہ بیرون ملک سے آنے والوں سیاحوں سے یہی فیس ڈالروں کی صورت میں وصولی جاتی ہے۔۔۔اس چوکی سے دو راستے تقسیم ہوتے ہیں، ایک رنبور وادی کی جانب چلا جاتا ہے جہاں نسبتاً زیادہ کیلاش آباد ہیں لیکن یہ چھوٹا گاوں اور یہاں سہولیات کا فقدان ہے جبکہ اسکی نسبت ’’بمبوریت‘‘ بڑا گاوں ہے جہاں مسلمان اور کیلاش مل کر رہتے ہیں اور یہاں کافی تعداد میں ہوٹل اورریسٹ ہاوس وغیرہ موجود ہیں۔۔۔
کچی سڑک۔۔۔۔۔گرد و غبار اور بے شمار موڑ۔۔۔ہر اندھے موڑ پہ جیپ کے ساتھ ساتھ دل بیٹھتا چلا جاتا تھا۔۔۔۔آہستہ آہستہ احتیاط سے جیپ چلاتے جب میں بمبوریت کے نزدیک پہنچا تو سہہ پہر کا وقت تھا ، مسلسل بیس گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد بلآخر بستی کے آ  ثار نظر آنا شروع ہوئے۔۔۔۔پہلے دریا کے کنارے چند تباہ حال کھنڈرات نظر آئے، تھوڑا آگے جا کر ’’گھنے اشجار ‘‘ اور سرسبز کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر ہموار چھتوں والے چند کچے گھروندے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چند چھوٹی چھوٹی دوکانیں۔۔۔۔۔اور ان دوکانوں کے چوبی برآمدوں میں۔۔۔۔۔۔ فرش پہ آلتی پالتی مارے کچھ بزرگ  جو آپس میں سر جوڑے فرش پہ لکیریں کھینچ  کر ’’ شطرنج نما ‘‘  کھیل کھیلنے میں مگن تھے۔۔۔۔۔اس کھیل میں وہ   کنکریوں کو گوٹیوں کی جگہ استعمال کر رہے تھے۔۔۔۔ میں گاڑی سے اتر کر برآمدے میں ان کے پاس کھڑا ہوا۔۔۔۔ ان سب نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور مسکرا کر پھر اپنے کھیل میں مگن ہو گئے۔۔۔۔ دراصل میں اپنی ٹانگیں (سٹریچ) کرنا چاہ رہا تھا جو مسلسل جیپ میں بیٹھنے سے تھک گئیں تھیں ، میں ہر ایک گھنٹے بعد اسی طرح  چند لمحوں کیلئے جیپ سے باہر نکل کے تھوڑی دیر کیلئے کھڑا ہو جاتا تھا۔۔میں چند لمحے انکا کھیل دیکھتا رھا اور پھر واپس جیپ میں بیٹھ کر آگے بڑھنے لگا۔۔۔مٹی ،  لکڑی اور پتھروں پہ مشتمل دوکانوں کا سلسلہ شروع ہوا  ، تھوڑا آگے جاتے ہی دائیں جانب ایک ہوٹل پہ نگاہ گئی جسکا نام ’’بے نظیر ہوٹل‘‘ تھا جو  کہ سابقہ وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کے نام پہ رکھا گیا تھا۔


بینظیربھٹو صاحبہ کے والد ذوالفقار علی بھٹو سے اس علاقے کے لوگ محبت کرتے تھے اور اسکی وجہ  ذوالفقار علی بھٹو  کا ’’ لواری ٹنل‘‘ منصوبے کا آغاز تھا، جو ایک میگا پروجیکٹ تھا لیکن بعد میں تعطل کا شکار ہوگیا ، پھر پرویز مشرف کے دور میں اس پہ کچھ کام ہوا اور اسکے بعد نوازشریف کے حالیہ دورِ حکومت میں برفباری کے سیزن میں ہفتہ میں دو دن کیلئے لواری ٹنل کو کھولا گیا  لیکن پھر بند کر دیا گیا ،تاحال اس میں مینٹیننس کا کام زور و شور سے جاری ہے اور شنید ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اسکی تکمیل اور افتتاح اگلے سال تک اپنے دور حکومت میں ہی کرنا چاہ رہے ہیں۔اسکی تکمیل سے ان علاقوں کے مکینوں کو اسکا بہت فائدہ ہو گا ،مقامی لوگ اور ملکی و غیر ملکی سیاح پانچ سے چھ گھنٹے کے خطرناک راستے کے اضافی سفر سے بھی بچ سکیں گے۔۔۔
’’بینظیر ہوٹل‘‘ کو کراس کر کے مختلف ہوٹلوں اور سراوں کے سامنے آویزاں بورڈوں پہ لکھے ناموں کو پڑھتا آگے بڑھتا گیا اور میری جیپ
’’ہوٹل الیگزینڈر‘‘ کے گیٹ کے آگے رْک گئی۔

ہوٹل کی کشادہ کار پارکنگ میں گاڑی پارک کر کے اندر داخل ہوا ،  ہوٹل کے وسیع صحن میں بہت بڑی تعداد میں خیمے نصب تھے اور پاس ہی بستروں کا ایک ڈھیر بھی موجود تھا اور انکے پاس کھڑے چند لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ استقبالیہ پہ موجود بے ڈھنگی پتلون اور کوٹ زیب تن کئیے کمرے کے اندر بھی’’ سیاہ چشمہ ‘‘لگائے ایک صاحب فون پہ محو گفتگو تھے، دو تین مرتبہ گلا کھنکار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور فون پر ہی کسی ’’انجانی زبان ‘‘میں محو گفتگو رہے،میں چپ چاپ ایک طرف ہو کے کھڑا ہو گیا۔کافی دیر بعد انہیں اچانک خیال آیا تو دوسری جانب غالباً ہولڈ کروا کر اپنے مخصوص مقامی لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے
جی بائی صاب ؟؟
کیا مسئلہ ہے تم کو ؟؟
کمرہ نئیں ایے۔۔۔۔
ادھر سب ہوٹل ٹورسٹ گروپ والوں نے کئی دن پہلے بْک کر لئیے ہیں میلے کیلئے !!!
تْم کو ادھر کوئی ہوٹل نئیں ملے گا۔۔واپس چترال چلا جاو اور رات چترال میں گزار کر میلے کیلئے دوبارہ صبح آجاو!!!

میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نےان  تمام سوالات کے خود ہی جوابات دے  دئیےجو میں نے پوچھے بھی نہیں تھے  اور پھر دوبارہ سے فون پہ متوجہ ہو گئے !!!
میں انہیں تکتا ہی رہ گیا ۔۔
واپس آ کر جیپ سٹارٹ کی اور دیگر گنتی کے چند ہوٹلوں سے رابطہ کیا لیکن سب سے ٹکا سا جواب ملا ۔
بمبوریت میں حکومت پاکستان کے محکمہ سیاحت کا ایک انتہائی خوبصورت ریسٹ ہاوس موجود ہے جسکے داخلی دروازہ پہ بڑا سا تالا میرا مونہہ چڑا رھا تھا۔


کچھ عرصہ پہلے وادی کیلاش میں آنے والے سیلاب نے یہاں زبردست تباہی مچائی تھی اور کیلاش باشندوں کی دوکانیں اور دیگر مال اسباب سب بہا کر لے گیا تھا۔ سیلابی پانی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے دیگر ہوٹل تو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ تعمیر کر لئے ہیں لیکن حکومت پاکستان کی ملکیت یہ سرکاری ریسٹ ہاوس جس کا کچھ زیادہ نقصان بھی نہیں ہوا اور ایک دو کمروں کے سوا باقی تمام عمارت ٹھیک حالت میں اور قابل استعمال ہے ، محض حکام بالا کی عدم توجہی کا شکار اور محکمہ سیاحت کی روایتی کاہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ میلے کے سیزن میں جب چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کے مالکان خوب کمائی کر رہے ہیںِ اس شاندار سرکاری  ریسٹ ہاوس پہ تالا پڑا  ہوا ہے اور محکمہ سیاحت کے افسران و عملہ مفت کی تنخواہیں لے کر آرام فرما رہے ہیں۔۔۔
ہر طرف سے انکار کے بعد بالآخر میں نے گاڑی مقامی تھانے کی چھوٹی سی عمارت کے سامنے روکی جس پہ پاکستانی پرچم لہلہارھا تھا۔
عمارت کے اندر داخل ہوا،  خوش قسمتی سے تھانیدار صاحب تھانہ میں ہی تشریف فرما تھے، ان سے ملاقات کی ،  تعارفی کارڈ دیتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا اور ان سے مدد کے طلبگار ہوئے۔۔
’’محمد ولی شاہ‘‘ نامی یہ تھانیدار دیگر تھانیداروں سے مختلف شخصیت کامالک اور عجز و انکساری کا پیکر بنے دکھائی دیا، نہ بڑی سی توند ،نہ بھاری بھرکم وجود اور نہ ہی چہرے پہ تکبر کے آثار۔۔وہ کسی صورت بھی ’’روایتی تھانیدار‘‘ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ولی محمد صاحب انتہائی خوشدلی سے ملے حال احوال پوچھا اور فوراً ہی انہوں  نے کسی کو آواز دے کر ٹھنڈا پانی اور چائے لانے کو کہااور پھر یوں گویا ہوئے
پیر صیب !!!
اصل میں میلہ شروع اے ۔۔۔۔تو اس وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کا رش اے ۔۔۔۔ پورے پاکستان سے لوگ آتا اے اور باہر سے گورا لوگ بھی آتا اے ۔۔۔اب آپ آ  گیا اے توَ اَم آپکا ضرور مدد کرے گا۔۔۔اَم خود باہر سے یہاں پوسٹنگ ہوا  اے ۔۔آپ اَمارا میمان اے۔۔اور آپکی مدد کرنا اَم پے فرض اے۔۔تم چائے پیو اَم کچھ کرتا اے۔۔۔۔
اس دوران انہوں نے کسی سے بات کی اور جب تک میں نے چائے پی،  انہوں نے بتایا کہ ایک بڑا ہوٹل ہے ۔۔ بمبوریت کے بڑے ہوٹلوں میں سے ایک ہے اور اسکے پورے آٹھ کمرے ہیں جو کہ سارے بک ہیں تاہم اسکا ایک کمرہ مل سکتا ہے لیکن وہ تھوڑا مہنگا ہے اورزیادہ کرایہ مانگ رہا ہے۔۔۔ عام حالات میں ایک ہزار سے زیادہ کرایہ نہیں ہوتا لیکن چلم جوش کے میلے کی وجہ سے اسکا کرایہ سات ہزار ہے۔۔۔۔پھر بھی ہم  بندہ ساتھ بھیجتا ہے جو آپکو ہوٹل تک کا راستہ بتائے گا اور آپکے لئے اس سے کہہ کر کچھ کم کروا لے گا۔۔
میں نے گرم چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے فوراً حامی بھر لی اور تھانیدار صاحب کا شکریہ ادا اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کر کے انکے بھیجے ہوئے سنتری کے ہمراہ ’’ ہوٹل فارنرز اِن ‘‘پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔۔         

                                                                                                                                                                                                                                                        (جاری ہے )

مزید :

بلاگ -