ہوئے بالاخر نیب میں   پیش

 ہوئے بالاخر نیب میں   پیش
 ہوئے بالاخر نیب میں   پیش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابق وزیر اعظم  کی لندن سے واپسی اور تزک و احتشام سے ان کی نیب عدالت میں پیشی  ان کے وفاداروں کا وہ نذرانہ ہے  جس نے ایک دفعہ پھر اداروں  کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے- ملکی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ میرے وزیراعظم نواز شریف ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو ن ہیں – آج جب وفاداری اور ایمانداری ایک دوسر کے مدِ مقابل ہیں تو مجھے  ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سابق ڈائریکٹر ایف بی آئی جیمز کومے کی اپنے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے کہی ایک بات  یاد آرہی ہے – ان کا کہا ایک فقرہ کہ جس نے شاید  ہمارے حکومتی وفاداروں کے ضمیر کو بھی جھنجوڑا ہے  یا  نہیں لیکن ایک ضرب المثل بن کے تاریخ ضرور لکھ دی ہے  اور برسوں کے لئے آنے والے حکومتی افسران کی درجہ بندی اور اپنے اپنے عہدوں پہ دی جانے والی خدمات کے معیار کا پیمانہ بھی ضرور متعین کر دیا ہے ۔ صدر ٹرمپ سے کہے یہ الفاظ کہ مجھ سے وفاداری نہیں ایمانداری کی توقع ضرور رکھیں ہماری افسر شاہی کے لئے وہ مشعل راہ ہیں جو ملکوں کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں عظیم سے عظیم تر بناتے ہیں ۔ 

ملک کی اعلی عدالت کے جج صاحبان نے حکومتی اداروں کے سربراہان پہ جس طرح تنقید کی ہے شاید وہ ہمارے روشن کل کی نوید ہے ۔ وہ جن کی وفاداری اور خدمت گذاری ان کی ایمانداری پہ اکثر حاوی آجاتی تھی شاید یہ تنقید ان کے لئے ایک درس ہو اور آنے والوں کے مضبوط کردار کی تعمیر میں ایک کلیدی اکائی ۔ ایسی ہی وفاداری نے ایمانداری بالائے طاق رکھ کر ایک وزیر اعظم کو لٹکایا ضرور تھا لیکن لٹکنے والا آج بھی کئی دلوں میں زندہ ہے لیکن لٹکانے والا روز تاریخ کے اوراق پہ سزا پاتا اور وقت کی پھانسی پہ لٹکتا پل پل جیتا اور مرتا ہے مگر آج بھی کب سبق سیکھتا ہے ۔

مجھے ماضی کے ایک ایسے ہی منصف کی وفاداری کی کہانی یاد آ رہی ہے جس نے ترقی کا راز وفاداری میں ہی پایا اس کی ایمانداری پہ تو شاید کسی کو شک ہو لیکن وفاداری ہر دور میں قابل مثال رہی ہے ۔ وفاداری میں ہر حد سے بڑھ جانا ان کا مطمع نظر تھا اور ٹیلی فون پہ سزا و جزا کے فیصلے اور عرصہ قید پہ مک مکا کرنا وفاداری کا تقاضا جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا  ہواتھا۔  حکمران تبدیل ہوئے مگر فطری خصوصیات وہی رہیں -حریف آمر کے دور میں بھی زور وفاداری پہ ایک اہم سرکاری عہدے پہ فائز رہے ۔ لیکن بات یہیں تک رہتی تو شاید مجھے بھی ان کی حکومتی وفاداری پہ موقع شناسی کی بو آتی ۔ لیکن وہ وفا ہی کیا جس پہ بے وفائی کا کوئی شائبہ ہو ۔ جن کو سزا دی جب ان کا دور آیا تو موصوف نے ان کی وفاداری میں اسی سرکاری عہدہ پہ براجمان ہو کے نہایت تندہی سے ڈیڑھ سال وفاداری کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھا ۔ ملکی احتساب کے ادارے کے سربراہ نے بھی عدالت اعلی کے سامنے پرانے کیس کھولنے پہ جب لیت و لعل سے کام لیا تو عام عوام کی آنکھیں بھی اس عظیم شخصیت کی حاکم وقت سے احسان مندی و نیاز مندی کے جذبات پہ بھر آئیں ۔
ایمانداری فقر و فاقے ہی دیتی ہے ۔ بچپن میں پڑھتے تھے کہ ایمانداری بہترین حکمت عملی ہوتی ہے لیکن جب عملی زندگی شروع ہوئی تو وفاداری ہی وہ بہترین زینہ معلوم ہوئی جو دن دگنی رات چوگنی ترقی کا راز سر بستہ ٹھہری ۔ ملک کے صائب اداروں کے سربراہان پہ رشتہ داری یا وفاداری ہی وہ میرٹ ہے جو ریٹائرمنٹ کی عمر عبور کر جانے پہ بھی آپ کو ایکسٹینشن پہ ایکسٹینشن دلواتی ہے اور آپ کے نیچے ایمانداری وقت سے پہلے ہی ریٹائر کر دی جاتی ہے ۔ ایک ہر دلعزیز کھیل کے ایک سابق چئیرمین صاحب کو ہی لے لیجئے شاید اُس وقت وہ چلنے پھرنے سے بھی عاجز تھے – جب وہ اس کھیل کے سرپرست تھے۔ اپنے ادارے کے خرچ پہ بیرون ملک دل کا مہنگا آپریشن کروانے والے اس کھیل کے سربراہ نے جب عنانِ حکومت منتقل کیا تو وہ بھی پیشہ ور کرکٹر نہ تھا  - اس نے بھی اس عہدے پہ کمند اپنی وفاداری اور  جاں نثاری سے ڈالی اور اب   اس کو ایمانداری سے نبھا بھی رہے ہیں یا  وفاداری ہی  اس شاہانہ موج مستی کو چلا رہی ہے فیصلہ آپ کو کرنا ہے لیکن  ماضی ضرور یہ بتائے گا کہ  اس شخصیت نے جب حکومتی مظالم  اور قید و بند میں وفاداری کی بھٹی میں کندن بننے کے عمل سے گزرنا پسند کیا تو اب عظمتیں بھی ان کی معراج کو کہاں پہنچ سکتی ہیں ۔  کامیابیاں قدموں سے لپٹی    ہر سو پھول ہی پھول کھلا رہی ہیں -ان بلندیوں پہ اب ایمانداری کی توقع شاید کوئی  حقیقت نہ ہو گی لیکن وفاداری شرطیہ ہے ۔ حکم حاکم پہ جھکا سر خلعت سلطانی ہی تو پہناتا ہے ۔ پھر کون ہے جو ان کی ہوا کو بھی چھوسکے  ۔

 سلطانی حکم نامے پہ اگر کوئی کوئٹہ جائے اور اپنے ہی ادارے کی اعلی شخصیت کے خلاف فیصلہ سنائے اور کراچی میں تا مرگ اعلی عیدے پہ فائز  نہ کر دیاجائے ایسی مطلب پرستی کی توقع ملکی شاہ سے ہر گز نہیں کی جا سکتی ۔ اگر آج ہوتا ہوا احتساب ہی وفا داروں کی پریس کانفرنسز میں انتقام بنا دیا جائے ۔ تو ایمانداری ہتھکڑی نہ پہنے کہاں ممکن ہے ۔ صوم و صلواۃ میں مصروف ملکی دشواریوں میں دوا کرنے والے مسیحا ارض حجاز میں دعاؤں میں مصروف ہیں ۔ خاندان کے بچے مجمع ارکان کے ساتھ عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ دلوں میں کدورتوں کو ختم کرکے رشتہ داری میں وفاداری کی جوت جگانے میں مصروف کار ہیں ۔
دھنیا چور کی عزت افزائی میں سلاخیں اور صاحب اقتدار کی لوٹ مار میں فرش راہ ہوئی آنکھیں مجھے اس دربار میں لے جاتی ہیں جہاں قوموں کی تباہی و بربادی کی وجوہات دوہرا قانون ِانصاف ہی قرار پایا تھا ۔ اگر اس دور میں  بھی وفاداری ہی ایمانداری پہ حاوی ہوتی تو اسلام چار دانگ عالم نہ پھیلتا ۔ حق و صداقت کے اس معاشرے کے امین اگر آج وفاداری کو بلندی کی سیڑھی بنائے ہوئے ہیں تو وہ بھول رہے ہیں کہ یہ وہ واحد بلندی ہے جو قوموں کو اتھاہ گہرائیوں میں دفنا دیتی ہے – میرے خیال میں تو جیمز کومے کے کہے الفاظ ہی  اگر افسر شاہی اپنا اولین نصب العین بنا لے تو وہ دن دور نہیں جب کرپشن اس ملک پاکستان میں آخری سانسیں لے رہی ہو گی  -صبح ِ نو  کو جنم دے رہی ہوگی مگر شرط وفاداری نہیں ایمانداری ہے-

  .

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -