کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
پانامہ پیپرز کیس کا ’’تاریخی‘‘ فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ تاریخی ذرا نمایاں اس وجہ سے کیا ہے کہ 20اپریل کی سہ پہر ایک سوال بہت سے لوگوں کی زبان پر تھا’’یہ ہے وہ فیصلہ جسے تاریخی اور دوررس نتائج و اثرات کا حامل قرار دیا جا رہا تھا‘‘ اِدھر فیصلہ آیا اُدھر سوشل میڈیا کی مشین چالو ہو گئی۔ کچھ ایسا ماحول تھا‘ جیسے ہاہاکار مچی ہو۔ٹی وی پر بیٹھے فلاسفر دور دور بلکہ بہت دور کی کوڑیاں لا رہے تھے جبکہ سوشل میڈیا پر حالت یہ تھی کہ جتنے اکاؤنٹ اتنی باتیں‘ جتنے بلاگرز اتنے تبصرے‘ جتنے منہ اتنے سوال۔ یہ باتیں‘ تبصرے اور سوال نقل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ کسی پر بھی توہین عدالت لگ سکتی ہے۔ کم از کم میں تو اس سے بچنا چاہتا ہوں۔ اس لئے بات تو کروں گا لیکن محتاط رہ کر۔ التماس ہے کہ آپ بھی محتاط رہ کر پڑھئے۔ رات کے ٹاک شوز میں صورتحال اور زیادہ دلچسپ ہو گئی جب مسلم لیگ ن کے حامی فیصلے کو تاریخی قرار دے کر یہ کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم اور حکومت سرخرو ہوئے‘ جبکہ اپوزیشن والے اسے اپنی فتح قرار دے رہے تھے۔ذرا غور کیجئے ‘ کیا یہ عدالت کا پہلا فیصلہ نہیں ہے‘ جس پر مدعی نے بھی مٹھائی بانٹی اور خود بھی کھائی اور مدعا علیہ نے بھی منہ میٹھا کیا‘ ورنہ پہلے تو صرف جیتنے والا مٹھائی کھاتا اور کھلاتا تھا‘ ہارنے والا تو ججوں کے ساتھ ساتھ وکیلوں کو بھی کوسنے دیتا تھا۔ یوں ایک دوست نے فون کیا ۔ کہا’’ اس فیصلے پر نور جہاں کا ایک فلمی گیت یاد آرہا ہے‘‘
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
باتیں جو زباں تک آ نہ سکیں
آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سنیں
اس تاریخی فیصلے نے بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ہے‘ جن کے جواب تلاش کئے بنا آگے بڑھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ مثلاً یہ کہ حکومت کے ماتحت ادارے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کی ان جائیدادوں کا پتہ یا سراغ لگا سکنے کی اہلیت کے حامل ہو سکتے ہیں‘ جن کا ذکر یا اندراج کسی دستاویز میں نہیں۔ دوسرا یہ کہ اپوزیشن پچھلے ایک سال سے شور مچا رہی ہے‘ اس کے باوجود پانامہ پیپرز کی حقیقت جانے کا معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کیا گیاہے تو کیا جے آئی ٹی کے لئے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ ساٹھ دنوں میں پانامہ پیپرز کا سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دے۔ اور تیسری سب سے اہم بات یہ کہ اگر جے آئی ٹی وزیر اعظم اور ان کے خاندان والوں کے خلاف فیصلہ دے گی تو اپوزیشن سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہو گا‘ لیکن اگر جے آئی ٹی نے حکمرانوں کے حق میں فیصلہ دے دیا تو؟ کیا اپوزیشن اسے تسلیم کر لے گی اور کیا اپنی بات منوانے کے لئے سڑکوں پر نہیں نکل آئے گی؟ جو اپوزیشن ابھی سے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے‘ وہ جے آئی ٹی کے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے افراد کے حق میں فیصلے کو تسلیم کر لے گی؟ یوں پانامہ کا باجامہ بن جانے کے امکانات بلکہ خدشات کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔ میرا تو خیال ہے کہ عمران خان نے جمعے کو احتجاجی جلسہ کرنے کا اعلان کردیا ہے ایک نیا میدان سجے گا‘ جو قبل از وقت انتخابات پر منتج ہو سکتا ہے ۔ مثلاً اگلے سال جولائی اگست کے بجائے فروری یا مارچ میں‘ کیونکہ یہ حکومت جون میں قائم ہوئی تھی اور اب اپریل چل رہا ہے یعنی جب تک جے آئی ٹی کا فیصلہ آئے گا‘ ممکنہ طور پر جولائی کا مہینہ ہو گااور حکومت کی آئینی میعاد پوری ہونے میں دس ماہ باقی ہوں گے۔ ایسے میں اگر چار پانچ ماہ بعد انتخابات کرانا پڑیں تو میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کوکوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
قبل از وقت انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو اس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ اس کے عہدے دار اور حامی و کارکن یہ واویلا کریں گے کہ ان کی تیسری حکومت کو بھی آئینی میعاد پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اگر آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ نہ صرف توانائی کے بحران کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے بلکہ اتنی وافر بجلی پیدا کرتے کہ برآمد بھی کی جا سکتی۔ فی الحال ہمیں سرپلس بجلی کی تو ضرورت نہیں‘ بلکہ اتنی بجلی کی ضرورت ضرور ہے کہ ہماری مقامی یا قومی طلب پوری ہو جاتی۔ صورتحال یہ ہے کہ آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا تو اس کے مکمل ہوتے ہوتے چار بار بجلی گئی اور آئی۔ میرے پاس لیپ ٹاپ ہے اور اس میں جو بجلی ذخیرہ ہو جاتی ہے‘ اس سے فی الحال چارگھنٹے تک بجلی کے بغیر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا کروں کہ پنکھے کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ ابھی کل کے اخبار میں لکھا تھا کہ بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے اور بجلی کے ساتھ ساتھ پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ 20اپریل کو پانامہ کیس کا سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانا تھا‘ لیکن لوگ پھر بھی سڑکوں پر لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کناں رہے۔ بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ چند روز میں لوڈ شیڈنگ کم ہو جائے گی۔ لیکن عوام ہیں کہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ع
کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔
اپریل کے مہینے میں ہی جون جولائی والی گرمی پڑ رہی ہے اور جب بھی بجلی بند ہوتی ہے ‘ میرا دھیان سکول میں پڑھنے والے اپنے بچوں کی جانب مبذول ہو جاتا ہے۔ وہ اچھے سکول میں پڑھتے ہیں‘ جہاں جنریٹر وغیرہ کا انتظام ہے‘ لیکن سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بھی تو کسی کے بچے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے کہ بجلی بند ہو جائے تو وہ اسی حبس زدہ ماحول میں پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تعلیم اور تعلم کا سلسلہ ایسے میں کیسے جاری رکھا جا سکتا ہے؟ اس کے باوجود رزلٹ اچھا نہ آئے تو اساتذہ سے باز پرس کی جاتی ہے۔ کیوں؟ سہولتیں حکومت نے دینی ہیں۔ اگر وہی موجود نہیں تو اساتذہ کیسے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور یہ جو اساتذہ سے کہا جاتا ہہے کہ گھر گھر جا کر نئے بچوں کا پتہ چلائیں اور انہیں اپنے سکول میں داخل کرائیں تو کوئی ہے جو اس بات کا جواب دے کہ آیا یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد برقرار رکھیں۔ حکومت اپنے سکولوں میں سہولتیں دے اور پھر دیکھے کہ بچے وہاں داخل کرائے جاتے ہیں یا نہیں۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ توانائی کے بحران کا ذکر ان معنوں میں آیا تھا کہ قابل از وقت الیکشن کرانے پڑے تو حکمران جماعت کو راہ فرار مل جائے گی کہ ٹرم پوری نہ ہونے دینے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ ہو سکا اور تعلیم کا ذکر اس طرح آیا کہ اور کون سے شعبوں میں حکومت نے گڈ گورننس قائم کرنے کی کوشش کی۔ سرکاری سکول تو محض ایک مثال ہیں۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور چار سالوں میں اسے دس فیصد بھی ٹھیک نہیں کیا جا سکا۔ اس بار موجودہ حکمران عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے کیا جواب دیں گے؟
دیکھائی یوں دیتا ہے کہ پانامہ کی دھول ابھی بیٹھے گی نہیں‘ مزید اُڑے گی۔ یہاں تک کہ الیکشن کا وقت آ جائے گا۔پچھلی حکومت نے رینٹل پاور جنریٹرز اور سوئس اکاؤنٹس کے سہارے پانچ سال گزارے اور موجودہ حکومت دھرنوں‘ پانامہ اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا سہارا لے کر اپنا وقت پورا کر رہی ہے۔ ہجوم کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہواکرتاہے قوم تو سیاستدانوں کو چم ٹے وعدہ پر حکومت کرنے نہیں دیتی۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔