وہ جو میرا اللہ ہے
میں ٹوٹے پھوٹے سجدے کرتا ہوں مگر وہ محبت کی ایک نظر ڈال کر قبول کر لیتا ہے ۔۔ میں اس کے بندوں سے بداخلاقی سے پیش آتا ہوں ، مگر وہ پیار سے نظر انداز کر دیتا ہے ۔ میں بیماری سے صحت یاب ہوتا ہوں تو دوا اور ڈاکٹروں کو کریڈٹ دیتا ہوں مگر وہ یہ سن کر بھی ناراض نہیں ہوتا ۔ میں سڑک پر بائیک اور گاڑی دوڑاتا پھرتا ہوں اور برسوں حادثوں سے محفوظ رہتا ہوں ایک بار بھی نہیں سوچتا کہ آخر کون مجھے خطروں سے یوں نکال کر روز گھر پہنچاتا ہے ، مگر وہ اس نالائقی کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے ۔ میں اپنی تن خواہ پر اپنے باس اور ادارے کا احسان مند ہوتا ہوں اور وہ اپنے احسان میں اس شرک پر بھی مجھے کچھ نہیں کہتا ۔ غرض کہ میں ہر روز دن اور رات میں سیکڑوں بار اس کی محبت ، شفقت ، اس کے پیار ، اس کی توجہ ، اس کی حفاظت ، اس کی خبر گیری ، اس کی نعمتوں کو، بھرپور اور خوب صورت کو تعلق انجوائے کرتا ہوں ، مگر میں ایک بار بھی دل کی گہرائیوں سے پیار اور وفاداری کے احساس میں ڈوب کر پورے خلوص کے ساتھ ایسے کہ میری آنکھیں بھیگ جائیں ایک بار بھی اس طرح اس کا احسان نہیں مانتا ، اس کا شکر ادا نہیں کرتا ، ایک بار بھی ۔۔۔۔۔ ہاں سچ کہتا ہوں ایک بار بھی نہیں !!
مگر وہ پھر اگلے دن اسی پیار ، توجہ اور محبت سے میری حفاظت میں لگ جاتا ہے ۔ اسے پھر میری ضروریات کی فکر ہوتی ہے ۔ وہ پھر میری ڈھارس باندھتا ہے ، میرے دکھ بانٹتا ہے ۔ میرے اردگرد نظر آنے اور نظر نہ آنے والے محفوظ حصار کھڑے کرتا ہے مجھے روز گھر پہنچانے میں لگ جاتا ہے ۔میری خیرگری میں اپنے سارے کارندے لگا دیتا ہے ۔ آخر وہ ایسا کچھ کیوں کرتا ہے ؟ میرے ساتھ کوئی یہ سب کچھ کرے ( جو میں اس کے ساتھ کرتا ہوں )، تو میں تو کبھی اس کی شکل نہ دیکھوں ، دنیا بھر میں اسے احسان فراموش بدنام کردوں اسے نفرت اور انتقام کا نشانہ بنا دوں ۔ اسے کبھی معاف نہ کروں ۔ پھر آخر وہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ وہ کیوں مجھے سزا نہیں دیتا ؟ میرے ساتھ ایسا ویسا نہیں کر گزرتا ؟ بس صرف اس لیے کہ وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے ، گہری ،شدید ، بھر پور چاہت رکھتا ہے۔ میری اماں سے زیادہ میرا خیرخواہ ہے ۔ جب کہ میں ؟ آہ ۔۔۔۔ میں بس اس کی محبت کی ایکٹنگ کرتا ہوں ، زبردست بھرپور اور کامیاب ایکٹنگ ، زبانی کلامی ، جھوٹی موٹی، روکھی پھیکی ، سوکھی سے محبت ، بے روح خالی خولی اور ڈراما بازی پر مبنی محبت ۔ اگر کبھی الحمداللہ اور شکر کے لفظ بے دھیانی میں منہ سے نکل جائیں لیکن میرے نزدیک ان کی کوئی معنویت نہیں ہوتی ۔بس سیکڑوں اور ہزاروں لفظوں کو کہیں دل کے اندر بہت اندر محسوس نہیں کیا ۔ اور مجھے ان لفظوں کے کبھی کوئی معنی بھی نہیں بتائے گئے ۔ اور پھر انہیں محسوس کرنا یا برتنا ؟؟؟ ناں ۔۔۔۔۔ناں ہرگز نہیں گھر ، اسکول کالج اور یونی ورسٹی اور میرے اردگرد کے ماحول نے کبھی مجھے اس کی محبت سے آشنا ہی نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ میری زندگی میں سے خوب صورتی ، حسن مزہ ذائقہ سب نکل گیا ہے ، بس اب یہ بورسی نوکری بن کر رہ گئی ہے۔سچ ہی کہتے ہیں کہ محبت کی مٹھاس نکل جائے تو پھر زندگی میں باقی بچتا ہی کیا ہے ؟ چند رسمی ازواجی چیزیں عارضی تسکین اور خوشی حاصل کرنے کے گھسے پٹے اور ناکام طریقے جو چند لمحوں کی آسودگی سے زیادہ کچھ بھی نہیں دے پاتے ۔
میرا محبت کرنے والا اللہ میرا منتظر ہے صبح اور شام میری راہ تکتا ہے ، مجھے اگر کوئی خوف ہے تو اس کی محبت کے چھن جانے کا خوف ہے ۔ میں جلد از جلد اس کی طرف پلٹ جانا چاہتا ہوں ، ایک محبت سے بھرپور دل کے ساتھ اس کی احسان مندی کے ساتھ اس کی کمال نعمتوں کے اعتراف کے ساتھ میں بھی بس اس کے عظیم الشان عرش کے گہرے ٹھنڈے اور پر سکون سائے میں عافیت تلاش کر لینا چاہتا ہوں ۔کسی بھی قیمت پر بس ہی رکھنا چاہتا ہوں میں اسی کا بندہ ہوں جس کے ہاتھ میں میری پیشانی ہے اور جس کو پکڑ کر وہ میری سمت درست رکھتا ہے ، میرے معاملے میں اس کے سارے فیصلے ، عدل احسان اور انصاف کا شاہکار ہیں ۔ میرے وجود سوچوں اور جذبوں سب پر صرف اسی کا حکم چلتا ہے ۔ میں اسے اس کے تمام ناموں کا واسط دے کر اس سے اس کی محبت کا طلب گارہوں ، میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اس طرح اسے چاہنے لگوں ، جیسے وہ مجھے چاہتا ہے ۔چلوہ ویسے نہیں اس سے کچھ کم سہی۔ میں بس اس کی نرم آغوش کا طلب گار ہوں میرے پاس اس کی طلب کے سوا کوئی اثاثہ نہیں پیش کرنے کو کچھ بھی نہیں ، کوئی معاوضہ اور قیمت بھی نہیں ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔