استعفٰی توسراج الحق کو دینا چاہئے
جماعت اسلامی کا قیام1941 میں عمل میں آیا۔ جماعت کے دستور کے مطابق بنیادی عقیدہ اسلام ہی جماعت کا عقیدہ اور مقصد قرار پایا۔ جما عت اسلامی کا بنیادی عقیدہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار،مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کے قیام کے ذریعے رضائے الٰہی اورفلاح اخروی کا حصول اول روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے۔ کہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنے۔ جس میں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔ انصاف پر مبنی نظام عدل ہو۔
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں حقیقی جمہوریت موجود ہے۔ جماعت کا پارٹی الیکشن کا نظام اس قدر جمہوری ہے کہ سراج الحق جیسا عام غریب آدمی نہ صرف پارٹی قیادت کا حقدار قرار پاتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کا ممبر بھی بنتا ہے اور صوبائی وزیر بھی۔
جماعت نے پاکستان کی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جماعت نے ہمیشہ اس کی فکری اور نظریاتی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی وفات کے بعد جماعت کی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ منور حسن صاحب کے بعد جب جماعت کی سربراہی کے لیے سراج الحق اور لیاقت بلوچ امیدوار تھے۔ تو ارکان نے سراج الحق کو جماعت کا سربراہ اس لیے منتحب کیا کیوں کہ لیاقت بلوچ کے نہ صرف شریف خاندان سے ذاتی مراسم ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت لے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ بنی کہ سراج الحق امیر جماعت اسلامی کی امارات کے عہدے کے حق دار قرار پائے۔ اس قبل بھی جماعت اسلامی نے الیکشن مختلف جماعتوں کے ساتھ مل لڑے۔ اور کچھ الکیشنز کا بائیکاٹ بھی کیا۔ 1990 میں جماعت نے پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا ۔ 1999میں 9 جماعتی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ 2002 میں امتحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا۔ 2008 میں اسی آمر جنرل پرو یز مشرف کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا جس کی سرپرستی میں 2002 کا الیکشن لڑا اور ایک صوبے میں حکومت بنائی جبکہ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنی۔ سراج الحق نے بطور امیر جو پالیسی اپنائی اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ 2013 میں جماعت نے تنہا الیکشن لڑا۔ خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ جماعت کی پالیسی میں تبدیلی کا اثر 2013 میں سامنے آئے جب جماعت اسلامی کے بہت سے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں ۔ یہ لحمہ فکریہ تھا کہ پالیسی پر غور کیا جاتا کیونکہ جماعت نے ہر الیکشن میں اپنے ہی منشور سے انحراف کیا اس کا نیتجہ یہ نکلا کہ جماعت صرف پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کر سکی بعد ازاں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لیا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق مولانا فضل الرحمان کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ 2014 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن دھاندلی کی تحقیقات نہ ہونے پر اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ جماعت اسلامی نے مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا۔ جماعت اسلامی جس نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے ساٹھ سال کوشش کی اور اسی نظریہ پر سیاست کی۔ اس سے یو ٹرن لے کر ایک کرپٹ حکومت کو بچانے کے لیے میدان میں یہ نعرہ لے کے آئی کہ جمہوریت بچانی ہے۔ سراج الحق کی اس مفاہمتی سیاست نے جماعت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ جمہوریت تو بچ گئی مگر جماعت نے اپنا ووٹر کھو دیا۔ کچھ دن قبل این۔اے 120 میں ضمنی الیکشن ہوا۔ جس میں جماعت اسلامی کے امیدوار صرف 592 ووٹ حاصل کر سکے۔ جبکہ ماضی میں اسی حلقے سے میاں محمد طفیل نے40,000ووٹ حاصل کیے جبکہ حافظ سلمان بٹ رکن صوبائی اسمبلی منتحب ہوئے۔
این۔اے 120 کے ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کے بعد امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اﷲ مجاہد نے اپنے عہدے سے اس لیے استعفیٰ دے دیا۔کہ وہ شکست کا ذمہ دار کود کو سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نتیجہ سراج الحق کی پالیسیوں کا ہے۔ عوام نے سراج الحق کی عوامی رنگ کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کا ووٹر جماعت کی نظریاتی اور فکری سیاست سے جڑا ہو ہے لہذا اس شکست اور جماعت اسلامی کے ووٹ بنک کی تباہی کی ذمہ داری امیر جماعت اسلامی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ذکر اﷲ مجاہد کی بجائے استعفیٰ سراج الحق صاحب کو دینا چاہیے۔ کیونکہ عوام نے سراج الحق کی پالیسی کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔
نوٹ: آخر میں پوری قوم سے گذارش ہے کہ نائب امیر جماعت اسلامی وسیم صاھب جو ٹریفک حادثے میں زخمی ہوئے تھے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اﷲ انہیں شفا کاملہ عطا فرمائے۔ آمین
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔