شرکت گاہ اور یورپین یونین کے تعاون سے بلوچستان میں ہیلپر ڈیویلپمنٹ کی تین روزہ ورکشاپ
ہیلپر ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن، نوجوانوں کی غیر سرکاری تنظیم ہے جوکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 2009 سے فلاح وبہبود ، خواتین کے حقوق، چائیلڈ لیبر چائیلڈ پروٹیکشن امن و امان، جیسے کاموں پہ جعفرآباد میں سرگرم ہے۔ ہیلپر ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے مقاصد یہ ہیں کہ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افضائی کرتی ہے اور مختلف علاقی سطح پہ پروگرام کرتی ہے تاکہ بلوچستان کی خواتین کے مسائل پوری دنیا تک پہنچ جائیں ۔اس مرتبہ ہیلپر ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن ، شرکت گاہ اور یورپین یونین کے تعاون سے بلوچستان میں صحافیوں کے مسائل پہ ایک تین روزہ پروگرام اوستہ محمد سٹی کلب میں کیا گیا جس میں خواتین کے حقوق اور تشدد پر میڈیا میں کیسے کام کیا جائے اور اس بارے عام آدمی کوکیسے شعور و آگاہی فراہم کی جائے اور پاکستان کے قوانین پر کیسے عملدرآمد کرایا جائے جیسے اہم موضوع کو اجاگر کیا گیا ۔ورکشاپ میں جعفرآباد کے لگ بھگ تیس صحافیوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر لاہور سے آنے والی خاتون محترمہ نیلم صاحبہ نے اپنے لیکچر میں کہا کہ ہرسال دنیا کے 31 سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل صرف بلوچستان اور سندھ میں نہیں بلکہ یہ جرم تمام دنیا میں موجود ہے۔ بلوچستان اور سندھ کی ثقافت میں عام لوگ اپنی بیٹیوں کو امی ماں جی امڑ یا جیجل کہتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔مگر جب غیرت کی بات ہوتی ہے تو سب رشتے تنکے بن جاتے ہیں اور انکی سزا موت ہوتی ہے۔خواتین اور غریب مردوں کو "غیرت" کے نام پر قتل کرنا جنوبی ایشیاء بھر میں صدیوں پرانا رواج ہے مگر برطانوی دور میں اس مشق پر قابو پالیا گیا تھا۔جبکہ بلوچستان کے صحافی وہ مظلوم طبقہ ہیں جو اپنے قلم سے دوستوں سے زیادہ دشمن پیدا کرتا ہے پولیس گردی کے خلاف لکھیں تو پولیس دشمن جرائم پیشہ افراد کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ لفافہ صحافی ۔۔۔۔بلوچستان کے صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہے۔
اس موقع پر سید شاریک نے بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں صحافیوں کیلئے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ ادارے جب چاہیں نوکری سے نکال دیتے ہیں۔ اگر کوئی مرض لاحق ہوجائے تو کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی صحافی برادری غیر محفوظ ہونے کے باوجود اپنے کام کو پوری ایمانداری سے ادا کرتی ہے اور عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھتے ہیں.
شبیر احمد بلیدی نے ہیلپر ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے بارے میں بتایا کہ ہم خواتین کے حقوق اور تشدد پر کام کرتے ہیں جبکہ حال ہی میں ہم نے لیڈرشپ اور لوکل گورنمنٹ پے کام کیا ہے اور ساتھ میں امن امان کے بارے میں یوتھ کو شعور آگاہی فراہم کے حوالے سے ٹریننگ کروا چکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خواتیں کو شعور آگاہی اور خواتین کونسلران کی کپسٹی بلڈنگ اور لوکل گورنمنٹ کے سسٹم کو سمجھنے کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کروا چکے ہیں جبکہ ہماری اور ترجیحات میں بچپن کی شادی کی روک تھام، پولیس ریفارم کی ٹریننگ، کرپشن کے خاتمے کے لیے ریلیاں ورکشاپ کا انعقاد ، اور فلاح بہبود کے لئے کام کرنا شامل ہیں۔اگر ہم بلوچ اور سندھی معاشرے میں روایت پرستی کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہاں پہ بلوچ اور سندھی معاشرے میں روایت پرست اورروایت شکنی ہمیشہ شک رہی ہے کیونکہ یہ اضلاع قریب ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے رسم و رواج کے بھی پاسدار رہے ہیں۔صرف خواتین یا محبت کی شادی کرنے والے جوڑے ہی اس ظلم کا نشانہ نہیں بنتے ۔ اکثر علاقے سندھ اور بلوچستان کے بارڈر پہ ہیں اسلیئے اب تک وہاں وڈیروں کا راج برقرار ہے، وہاں پہ یہ رجحان بہت زیادہ عام ہے۔اسی وجہ سے اگر لڑکی یا لڑکا کسی بھی جگہ بات کرتے بھی پکڑا گیا تو اسی وقت اسے غیرت کے نام پہ یا شک کی بنیاد پہ مار دیا جاتا ہے۔ کیا یہی انصاف کا تقاضا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ غیرت کے نام پہ سندھ اور پنچاب میں قتل ہوتے ہیں مگر وہ ریکارڈ سے غائب ہے۔
اس موقع سینئر صحافی ستار ترین نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ شک زیادہ ان خاندانوں میں ملتے ہیں جہاں قبائلی سسٹم ہے کیونکہ قبائلی سسٹم میں فیصلے جرگوں میں ہوتے ہیں جہاں قتل سزائے موت یا عمر قید نہیں ہوتی جس سے مجرم کو تکلیف ہو فیصلہ چند لاکھ روپے قتل کے عوض رکھا جاتا ہے اور قاتل سر خرو ہوجاتا ہے ۔ بلوچستان اور سندھ میں عزت کے نام پہ قتل کی قیمت بھی رکھی جاتی ہے جس میں دس سے بیس لاکھ عام ہوتی ہے ۔ہم اس سوچ کو بدلیں گے کہ شک ایک بیماری ہے جس میں ہم مرد و عورت کو مار دیتے ہیں ۔ پہلے اس غیرت کے لفظ کو اس قتل عام سے ختم کرنا ہوگا اور اس کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔