قاضی شریح کے تاریخی فیصلے اور ہماری عدالتیں

قاضی شریح کے تاریخی فیصلے اور ہماری عدالتیں
قاضی شریح کے تاریخی فیصلے اور ہماری عدالتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خالق کائنات فرماتے ہیں:اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو (اور وقت آنے پر) اللہ کی طرف گواہی دو۔ اگرچہ خود پر ہو یا اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں پر، اگر کوئی مالدار یا فقیر ہے تو اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو، اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بلاشبہ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

کبھی کبھی عزت،نیک نامی، شہرت دوام اور مقبولیت ایک قدم پر کھڑی ہوتی ہے جو ایک فیصلے سے آپ کی نسلوں کی کنیز بن جاتی ہے۔ اک بہادرانہ فیصلہ سے مگر اُس کے لیے درکار ہوتی ہے ایمانی قوت ۔۔
زندگی کے ڈرامے میں ادا کیا گیا کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے،کردار تو خالق کائنات عطا کرتا ہے مگر اُس میں رنگ انسان خود بھرتا ہے، گہرا یا پھیکا۔ اچھا یا برا۔
تاریخ کے سینے میں ایسے ہی کئی کردار صدیوں سے محفوظ ہیں، اُن میں سے ایک شخصیت کا نام ہے قاضی شریح۔ مسلم عدالتی تاریخ میں وہ سربلند اور روشن مینار کی طرح ایستادہ ہیں، فی الوقت اُن کے پائے کی دوسری کوئی مسلم شخصیت نظر سے نہیں گزری۔
الطبقات الکبریٰ جلد 6اور وفیات الاعیان جلد دوئم کے مطابق قاضی شریح نے ایک سو آٹھ برس کی عمر پائی اور خلفاء راشدین اور حضرت امیرمعاویہؓ کے دور حکومت تک خلقت کو بلا خوف و خطر اور بلا تفریق رنگ و نسل عدل و انصاف فراہم کیا۔ تاریخ کے اوراق سے اُن کے چند تاریخی فیصلے آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔
ایک مرتبہ قاضی شریح  کے لڑکے نے ایک شخص کی ضمانت دی جسے منظور کر لیا گیا۔ وہ شخص مقررہ وقت پر عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے بھاگ گیا۔ قاضی صاحب نے بیٹے کو گرفتار کرا دیا اور پھر جیل میں روزانہ خود کھانا پہنچاتے رہے۔
قاضی  شریح کے دلچسپ فیصلوں میں سے ایک یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز فیصلہ بھی تھا۔ ایک دن بیٹے نے کہا: ابا جان! میرے اور فلاں قوم کے درمیان آج جھگڑا ہوا ہے، اگر فیصلہ میرے حق میں ہو تو انہیں گھسیٹ کر عدالت میں لے آؤں اور اگر اُن کے حق میں ہو تو میں صلح کر لوں۔
پھر جھگڑے کی ساری تفصیل بیان کر دی۔
آپؒ نے کہا: جاؤ، انہیں عدالت میں لے آؤ۔
وہ خوشی خوشی مخالفین کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں لے آیا۔
قاضی شریح نے مقدمے کی سماعت کے بعد بیٹے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ وہ لوگ خوش و خرم واپس لوٹے اور بیٹا کبیدہ خاطر افسردہ و شرمندہ منہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آ گیا۔ جب قاضی شریح اور اُن کا بیٹا گھر پہنچے تو بیٹے نے باپ سے کہا: ابا جان! آپ نے مجھے رسوا کیا۔ اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ لیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ افسوس یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ دیدیا۔ لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہوں گے!۔ قاضی شریح نے جواب دیا: بیٹا دنیا بھر کے لوگوں سے مجھے تو عزیز ہے لیکن یاد رکھ، اللہ کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے۔مجھے اندیشہ تھا، اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ اُن کے حق میں ہو گا تو اُن سے صلح کر لیتا اور وہ اپنے حق سے محروم رہ جاتے، اِس لیے میں نے تجھے کہا کہ انہیں عدالت میں لے آؤ تاکہ عدل و انصاف سے اُن کا حق انہیں مل جائے۔
امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک بدوی سے گھوڑی خریدی، اُسے قیمت ادا کی۔ اُس پہ سوار ہوئے اور چل دیے، ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ لنگڑانے لگی۔ آپ واپس موڑ کر اُس شخص کے پاس لے آئے۔ فرمایا: یہ گھوڑی واپس لے لو، یہ لنگڑاتی ہے۔بدوی نے کہا:امیرالمؤمنین، میں واپس نہیں لوں گا کیونکہ میں نے صحیح حالت میں فروخت کی تھی۔امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:چلیے فیصلے کیلئے کسی کو منصف مقرر کر لیں جو میرے اور آپ کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کر دے۔بدوی نے کہا: کیا شریح بن حارث کندی کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مجھے منظور ہے۔عدالت میں پہلے بدوی، پھر حضرت عمر فاروقؓ نے اپنا موقف اختیار کیا۔ قاضی شریحؒ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا۔ امیرالمؤمنین،کیا یہ گھوڑی جس وقت آپ نے خریدی تھی، صحیح سالم تھی۔ فرمایا:ہاں! قاضی شریح نے کہا:امیرالمؤمنین جو شے آپ نے درست حالت میں خریدی، اُسے اب اپنے پاس رکھیے یا پھر اُسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت میں آپ نے اُسے خریدا تھا۔
یہ واقعہ تو بہت ہی زیادہ بیان کیا گیا۔ شاید ہی کوئی ہوگا جس نے اِسے سن نہ رکھا ہو۔
جنگِ صفین کے موقع پر امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ایک زرہ گم ہو گئی۔ آپ نے ایک غیرمسلم کو زرہ بیچتے دیکھا تو فرمایا:یہ میری ہے۔
اُس نے کہا:نہیں، یہ میری ہے۔دونوں کے درمیان معاملہ حل نہ ہوا تو انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی شریح نے امیرالمومنین کو دیکھا تو احتراماً کھڑے ہوئے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹھے رہیں۔ قاضی شریح بیٹھ گئے۔پھر فرمایا: میری زرہ کھو گئی ہے۔ میں نے اُسے اِس کے پاس دیکھا ہے۔قاضی شریح نے غیرمسلم سے پوچھا:تمہیں کیا کہنا ہے؟، ذمی نے کہا:زرہ میری ہے کیوں کہ یہ میرے قبضے میں ہے۔قاضی  شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے: اللہ کی قسم اے امیرالمومنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے، یہ آپ ہی کی زرہ ہے لیکن قانون کے مطابق آپ کے لیے گواہ پیش کرنا واجب ہے۔حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے بطور گواہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا۔ اُس نے آپ کے حق میں گواہی دی۔ پھر آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو عدالت میں پیش کیا، اُنہوں نے بھی آپؓ کے حق میں گواہی دی۔قاضی شریح نے کہا:غلام کی آقا اور بیٹوں کی باپ کے حق میں گواہی قبول نہیں۔ اور گواہ ہیں تو پیش کیجئے۔حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس مزید گواہ نہ تھے۔ قاضی شریح نے امیرالمومنینؓ کیخلاف فیصلہ دیدیا۔
قاضی  شریح نے فیصلہ دیتے وقت کسی بادشاہ کا لحاظ کیا اور نہ عوام الناس میں کوئی امتیاز برتا۔ یہی وہ صفت تھی جس کی بنا پر وہ آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم بھی سرخ رو ہو سکتے ہیں۔
زندگی کے ڈرامے میں ادا کیا گیا کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے، کردار تو خالق کائنات عطا کرتا ہے مگر اُس میں رنگ انسان خود بھرتا ہے، گہرا یا پھیکا۔ اچھا یا برا۔کبھی کبھی عزت،نیک نامی، شہرت دوام اور مقبولیت ایک قدم پر کھڑی ہوتی ہے جو ایک فیصلے سے آپ کی نسلوں کی کنیز بن جاتی ہے۔ اک بہادرانہ فیصلہ سے مگر اُس کے لیے درکار ہوتی ہے ایمانی قوت ۔۔
خالق کائنات فرماتے ہیں:اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو (اور وقت آنے پر) اللہ کی طرف گواہی دو، اگرچہ خود پر ہو یا اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں پر، اگر کوئی مالدار یا فقیر ہے تو اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو، اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بلاشبہ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -