بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار

بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار
بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار
کیپشن: riaz ahmad ch

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بھارتی سپریم کورٹ نے مظفر نگر میں مسلم کش فسادات کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی مرکزی سرکار،اتر پردیش کی مقامی حکومت اور انٹیلی جنس ادارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور تشدد کو شروع ہی سے روکنے میں ناکام رہے، لہٰذاجو بھی سرکاری آفیسر اور سیاستدان قصور وار ہیں، ان کے خلاف کسی دباو¿ میں آئے بغیر کارروائی کی جائے....گذشتہ برس اگست اور ستمبر میں اتر پردیش کے کئی علاقوں میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں تقریبا ساٹھ مسلمان شہید ہوگئے تھے، جبکہ پچاس ہزار سے زیادہ افراد کو جان بچا کر پناہ گزین کیمپوں کا رخ کرنا پڑا تھا۔تب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ فسادات کی انکوائری عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم سے کرائی جائے، تاکہ فسادات کے پیچھے کارفرما مبینہ سازش کا پردہ فاش کیا جاسکے۔

 مقدمے کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلاءنے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت واقعہ کی تحقیقات میں جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے، لہٰذا ان واقعات کی تحقیقا ت سپریم کورٹ کے زیر نگرانی خصوصی ٹیم تشکیل دے کر کرائی جائے اورخصوصی تحقیقاتی ٹیم میں سی بی آئی کے اہل افسران کو بھی شامل کیا جائے ،تاہم عدالت نے اس مرحلے پر مظفرنگر کے مذہبی فسادات کی انکوائری ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) یا مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) سے کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو بروقت خبردار کرنے میں ناکام رہنے پر وفاقی اور ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بھی نکتہ چینی کی۔ حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہاں کا معاشرہ اب بھی انتہاپسندی، ذات پات، تعصب اور درجہ بندی کے ہزاروں سال پرانے نظریات پر قائم ہے۔سیکولر بننے کے لئے تحمل، بردباری، برداشت اور دوسرے کے خیالات اور م¶قف کو سمجھنے اور سہنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ذات پات پر مبنی انسانی استحصال کے معاشرے میں ایسا معیار کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
 ہندو¶ں کی اسی انتہاپسندی اور تعصب نے ایک صدی پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے لئے الگ وطن کی جدو جہد کا آغاز کریں۔ بھارت میں مسلمانوں کو ملیچھ، بھارت ماتا کے ٹکڑے کرنے والے اور دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ان پر تعلیم، تجارت اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں کہ تعلیم سے لے کر روزگار تک ہر شعبے میں مسلمانوں کی اوسط ملک کے کسی بھی پسماندہ طبقے سے کم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری اور فلاحی اداروں کی جانب سے دی جانے والی چھوٹی موٹی سہولتوں سے بھی وہ محروم ہیں۔ خط افلاس سے نیچے رہنے والے مسلم گھرانوں میں سے صرف 15.1 کو سرکاری سکیم کے تحت مفت اناج مل پاتا ہے۔ صرف 2.3 فیصدمسلمانوں کو کم شرح سود پر قرض ملتے ہیں۔
 غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمان کم وبیش 20 کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ بھارتی فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں سے بھی اکثر یت انڈین آرمی میں انتہائی معمولی نوعیت کے کاموں پر مامور ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے وقت انڈین آرمی میںمسلم نمائندگی 14 فیصد کے قریب تھی، جسے بتدریج کم کر کے ایک فیصد سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔ جائزے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ دیہی علاقوں میں 60 فیصد سے زائد مسلمان ایسے ہیں، جن کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، جبکہ صرف ایک فیصد مسلمانوں کے پاس ہینڈ پمپ سیٹ ہے۔ صرف3 فیصد مسلمانوں کو سبسڈی والی بجلی دی جاتی ہے۔ صرف 2.1 فیصد مسلمانوں کے پاس ٹریکٹر ہے اور 0.3 فیصد مسلمان گروپ ہاو¿سنگ سکیم کے ممبر بن پاتے ہیں۔ تیس فیصد مسلمانوں کو سرکاری طور پر پندرہ فیصد تسلیم کیا جاتا ہے، تاکہ اس تناسب سے انہیں سرکاری ملازمتیں نہ دینا پڑیں۔

یہ تو تھیں انڈین گورنمنٹ کی مسلم کش پالیسیاں، اب دیکھئے کہ انتہا پسند ہندومسلمانوں پر مظالم ڈھانے میںہر حد پار کر چکے ہیں۔ 2006ءمیں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی ایک نئی قسم سامنے آئی۔ ہندو دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو نشانہ بناتیں اور بعد میں بھارتی حکومت ان بم دھماکوں کا الزام مسلمانوں پر ہی عائد کر کے ایک طرف تو ان کو پوری دنیا میں بدنام کرتی اور دوسری طرف ان دھماکوں کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ اس سلسلے کا آغاز مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی قصبے مالی گا¶ں کی مسجد کے باہر ہونے والے بم دھماکے سے ہوا۔ اس دھماکے میں چالیس مسلمان شہید ہوئے۔ بھارتی حکومت نے اس دھماکے کا الزام حرکت الجہاد الاسلامی پر عائد کیا۔ 2006ءکے آخر میں بھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس کی کئی بوگیوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا۔ ساٹھ پاکستانی اس دھماکے میں شہید ہوئے۔ بھارت نے اس کا الزام لشکر طیبہ پر عائد کیا ۔12 مئی 2007ءکو حیدر آباد دکن کی تاریخی مکہ مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں مسلمان شہید ہوئے۔ اس بم دھماکے کے اگلے روز احتجاج کرنے والے پُرامن مسلمانوں پر بھارتی پولیس نے فائرکھول دیا، جس میں ایک درجن سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ 6 اکتوبر2007ءمیں راجستھان میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ میں بم دھماکے میں تین مسلمان شہید ہوئے، اندازہ لگائیے کہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس مقام پر بم دھماکے کا الزام بھی مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔
 مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی جرات مندانہ تحقیقات نے مسلمانوں کے لئے امید کی کرن پیدا کی، ہمینت کرکرے نے مالی گا¶ں اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا ذمہ دار بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل پروہت اور آر ایس ایس کے ایک ذیلی ونگ کے سربراہ کو قرار دیتے ہوئے انہیںگرفتار کر لیا، ان گرفتاریوں سے بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں”کرکرے“ تفتیش کرتا ہوا ان تک نہ پہنچ جائے۔ چنانچہ ممبئی حملوں کا ڈرامہ کر کے ہمینت کرکرے کو قتل کروا دیا گیا۔ بھارتی ریاست راجستھان کی کانگریس حکومت کے وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2007ءمیں اجمیر شریف میں ہونے والے بم دھماکے میں آر ایس ایس ملوث تھی اور اس بات کا راجستھان کی اس وقت کی بی جے پی حکومت کو بھی پتہ تھا، تاہم اس نے اس کیس کو دبا دیا۔ اطلاعات کے مطابق مالی گا¶ں بم دھماکوں سے لے کر اجمیر شریف تک ہونے والے بم دھماکوں میں وہی موبائل سمیں استعمال ہوئیں، جنہیں آر ایس ایس کے ایک رکن چندرا شیکھر نے چھتیس گڑھ سے خریدا تھا۔

مزید :

کالم -