عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا محافظ

عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا محافظ
عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا محافظ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور سے شائع ہونے والے دو قومی اخبارات میں آج دو مختلف احباب کے مضامین ’’ عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ دونوں مضامین کی روح اور جان یہ نکتہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ وہ بنیاد ہے، جس پر بجا طور پر اسلام کی درست طور پر تشریح اور تفسیر بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت محفوظ نہیں تو دین اسلام بھی محفوظ نہیں۔ مَیں اس نقط�ۂ نظر کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے ایک ضروری وضاحت پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔میرا یہ نقط�ۂ نگاہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت ہم نہیں کرتے،بلکہ عقیدۂ ختم نبوت خود ہمارے ایمان کی حفاظت کرتا ہے جب تک ہمارے ایمان کو عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ میسر رہے گا ہم مسلمان رہیں گے اور عقیدۂ ختم نبوت نے اگر ہمیں اپنی حفاظت،اپنی پناہ اور اپنے حصار سے محروم کر دیا تو ہم دولتِ ایمان سے محروم ہو جائیں گے۔


عقیدۂ ختم نبوت کو قرآن کریم کی ایک سے زیادہ آیات اور رسول اکرمؐ کی دو سو سے زیادہ مستند احادیثِ مبارکہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدۂ ختم نبوت کا انکار دراصل قرآن مجید کی ایک سو سے زیادہ آیات اور دو صد سے زیادہ احادیثِ نبویؐ کا انکار ہے۔ قرآن کریم کی کسی ایک آیت اور ایک حکم سے بغاوت کسی بھی آدمی کو کفر کے دائرے میں دھکیل دینے کے لئے کافی ہے، جس عقیدے اور ایمان کے جس بنیادی نکتے کو قرآن کریم میں ایک سو سے زیادہ مرتبہ بیان کر دیا گیا ہو اور جس کی تشریح اور تفسیر مختلف انداز اور مثالوں سے احادیثِ نبویؐ میں بھی واضح کر دی گئی ہو اس عقیدے سے انکار صریحاً کفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت سے بغاوت کر کے جب بھی کسی فتنے کی بنیاد رکھی گئی تو اس کفر کے ردّ کے لئے پوری دُنیا کے مسلمان متحد ہو گئے۔ ہندوستان میں انگریزوں نے ایک منظم سازش اور منصوبہ بندی کے بعد اسلام کی بنیاد پر کاری ضرب لگانے کے لئے قادیانی فتنے کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان میں1974ء میں پارلیمینٹ نے قرآن اور احادیث کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے باطل نظریات کو اپنا عقیدہ قرار دینے والے قادیانی گروہ کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ عقیدۂ ختم نبوت سے بغاوت کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیرو کار قرآن اور احادیثِ رسولؐ کے مطابق پہلے بھی کافر تھے،لیکن ایک ایسا مُلک جس کی بنیاد ہی اسلام ہو وہاں ہمارے اجتماعی عقیدے کا یہ تقاضا تھا اور ایک اسلامی ریاست کو یہ ذمہ داری بھی بنتی تھی کہ اگر کوئی گروہ یا جماعت عقیدۂ ختم نبوت سے بغاوت کرنے کے بعد بھی خود کو مسلمان قرار دیتی تو پھر اسلامی ریاست کے آئین میں یہ وضاحت اور ترمیم ضروری ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دعویئ نبوت کرنے والا کاذب اور دجال ہے اور ایسے باطل دعوے پر یقین کرنے والا کافر ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کی حساسیت اور اہمیت آپ امام ابو حنیفہؒ کے اس مشہور فتوے سے خود لگا سکتے ہیں۔انہوں کہا تھا کہ حضور خاتم المرسلینؐ کے بعد دعوئ نبوت کرنے والا کذاب سے اگر کوئی دلیل یا معجزہ طلب کرتا ہے تو ایسا کرنے والا خود کافر ہو جائے گا۔ختم نبوت کے عقیدے پر ایک لمحے کا شک اور شبہ بھی ایمان کو خطرے میں ڈال دے گا، بلکہ اسلام سے محروم کر دینے کا باعث ہو گا، جس عقیدے پر پورے دینِ اسلام کی عمارت کھڑی ہو اس عقیدے کو چیلنج کرنے والے سے دلیل طلب ہی نہیں کی جا سکتی،بلکہ جس شخص نے بھی ختم نبوت کے عقیدے کو ترک کر کے کسی جھوٹے مدع�ئ نبوت سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہو ہمارا فوری ردعمل یہ ہونا چاہئے کہ اس شخص نے اسلام سے اپنا رشتہ توڑ کر خود کو شفاعتِ رسولؐ اور اللہ کی رحمتوں سے محروم کر لیا ہے۔


نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ یہ سب اسلام کے احکامات ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حکم کا انکار بھی کفر ہے،لیکن سب سے بڑا کفر عقیدۂ ختم نبوت سے انکار ہے۔ ختم نبوت سے انکار پورے اسلام کا انکار ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت اسلام ہی سے انکار کر دیتی ہے تو پھر نماز، روزے اور حج سے اس کا کیا رشتہ باقی رہ جاتاہے۔ ختم نبوت سے انکار کرنے والا دراصل ناموسِ رسالتؐ پر حملہ کرتا ہے۔ ہمارے عظیم الشان نبیؐ کی سب سے بڑی شان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کے آخری نبی اور رسولؐ ہیں، جس طرح دینِ اسلام کامل ہونے کے باعث قیامت تک اللہ کا آخری دین ہے۔ اسی طرح اکمل و احسن ہونے کے باعث حضور نب�ئ پاک کا یہ مقام ہے کہ ان کے بعد اب کوئی اور نبی یا رسولؐ نہیں آئے گا۔ اسلام کو اللہ کا آخری دین، قرآن کو اللہ کی آخری کتاب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا آخری رسولؐ نہ ماننا بدترین کفر ہے۔


جس طرح مَیں نے عرض کیا ہے کہ خاتم المرسلینؐ ہونا ہی ہمارے نبیئ محترم و محتشم کی سب سے بڑی شان ہے۔ اسی طرح میرا ایمان ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کو بیان کرنا اور ایسے فتنوں کا علمی و نظریاتی طور پر احتساب کرنا (جو عقیدۂ ختم نبوت کے کھلے اور چُھپے ہوئے دشمن ہیں) روزِ محشر ہمارے لئے شفاعتِ رسولؐ کا سب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کی خاطر صحابہ کرامؓ کے جہاد اور قربانیوں کو کون بھول سکتا ہے۔ ان کا یہ پاکیزہ عمل ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی قربانیوں اور شہادتوں کا ہی یہ ثمر ہے کہ اب عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنا ہر مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ اسلام کی مکمل سمجھ بوجھ اور شعور کی نعمتوں سے نوازے اور پورے کے پورے دینِ اسلام کی حفاظت کے لئے ہمیں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے ہمہ وقت مستعد اور بیدار رکھے۔ آمین

مزید :

کالم -