دھرنا معاہدہ: غلط روایت کی بنیاد؟
دھرنا دینا یقیناًبُری بات نہیں ہے، جمہوری ملکوں کی خوبصورت روایات میں احتجاج، مظاہرے، ریلیاں پہلے ہوا کرتی تھیں، قاضی حسین احمد نے دھرنا تحریک کی ایسی بنیاد رکھی کہ اب مطالبات چھوٹے ہوں یا بڑے، ’’اب دھرنا ہو گا‘‘ مقبول نعرہ بن چکا ہے،126دن کے طویل دھرنے کا ریکارڈ تو شاید ہی ٹوٹ سکے۔عمران خان کے دھرنے کی یادیں بھی مدتوں یاد رہیں گی،کیونکہ اس میں بھی بہت سی روایات نے جنم لیا، اخلاقی قدروں کی پامالی ڈھٹائی سے کی گئی۔
تحریک لبیک کا دھرنا کیونکر ہوا، کس نے کرایا، مقاصد کیا تھے، تحریک لبیک کا پنجاب حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، مولانا خادم حسین رضوی کا اسلام آباد میں دھرنا کیا کیا اثرات چھوڑ گیا، کیا روایات متعارف کرا گیا۔ تحریک لبیک کی اندرونی دھڑے بندی آج کا موضوع نہیں ہے اور نہ علامہ خادم حسین رضوی کی تقریروں کے وہ ٹوٹے جو ملک گیر شہرت پا چکے ہیں، موضوع بنانا مقصود ہے، ختمِ نبوت کے تحفظ اور بل میں ترمیم کرنے والوں کے خلاف فیض آباد دھرنا ختم ہو گیا۔بظاہر زاہد حامد کے استعفا کے بعد دھرنا تحریک منطقی انجام کو پہنچ گئی، مگر میری ذاتی رائے کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ دھرنا معاہدہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے، جن کی تلخی مدتوں قوم محسوس کرتی رہے گی۔ فیض آباد دھرنے کے معاہدے کے مندرجات، جن پر وزیر داخلہ سمیت تمام سٹیک ہولڈر اور جنرل فیض کے دستخط ہیں، ریاست کی رٹ، حکومت کی اتھارٹی، اداروں کی آئینی و قانونی حدود کے حوالے سے سوالات اُٹھائے جاتے رہیں گے۔
سیاسی مبصرین اورتجزیہ کاروں کے مطابق فوج کی نگرانی میں تحریک لبیک کے قائدین اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ نہ آئینی ہے اور نہ قانونی ، نہ اخلاقی۔۔۔ اس معاہدے کی روشنی میں حکومت ناکام ہوئی، اس کی رٹ نہ ہونے کا تاثر مضبوط ہوا، پُرتشدد مظاہرین و دھرنا شرکاء کے فتح یاب ہونے اور غالب آنے کا واضح تاثر ملا۔جسٹس شوکت صدیقی کے ریمارکس بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں، جن میں انہوں نے فرمایا:حکومت نے دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا اور اپنی ایک بات نہ منوا سکے، انتظامیہ اور پولیس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ دھرنا معاہدے کے ذریعے جن نئی روایات نے جنم لیا ہے ان میں جو بھی چند سو یا چند ہزار افراد لے کر آئے اور ساتھ اپنے مطالبات کی فہرست لے کر آئے اس کے لئے دھرنا دیا،وزراء کے گھروں پر حملے کر کے سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے، سرکاری اہلکاروں پر تشدد کریں اور کئی کئی دن سڑکیں بلاک رکھیں۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کی گاڑیوں کو آگ لگائیں، پھر احتجاج ختم کرانے کے لئے شرائط رکھیں، ہم مظاہرہ اور دھرنا ختم کرتے ہیں، آپ دہشت گردی کی دفعات والی ایف آئی آر واپس لیں گے۔ سرکاری املاک کا نقصان آپ پورا کریں گے، ہمارے گرفتار مظاہرین رہا ہوں گے، دھرنا میں شریک ہونے والے شرکاء کو واپسی کا کرایہ آپ دیں گے اور دھرنے میں پولیس کی لاٹھی چارج کے وقت زخمی ہونے والوں کا علاج بھی آپ کروائیں گے۔دھرنا معاہدے کے نکات پر عملدرآمد اور اس پر سٹیک ہولڈرز کے دستخط دیکھ کر بہت سے چھوٹے بڑے گروپ اب میدان میں آئیں گے۔ اگر اتنی آسانی سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتاہے تو پھر عدالتوں میں پندرہ پندرہ سال تک خوار ہونے کی کیا ضرورت ہے، چند کرائے کے مظاہرین لیں اورچڑھ دوڑیں،سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کر کے بیٹھ جائیں، بڑی سڑکوں کے درمیان لوگوں کا جینا دوبھر کر دیں۔دھرنا ختم کرانے میں سستی کا مظاہرہ کرنے پر سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی وزیر داخلہ کو سرزنش درست ہے، نواز شریف کی طرف سے اپنے وزراء سے پوچھے گئے سوالات غلط نہیں ہیں، وزیر داخلہ کی سولو اڑان کا تاثر وفاق اور صوبے کے درمیان ایک میز پر نہ ہونے کا تاثر کیونکر پیدا ہوا؟
قوم تو تب خوش ہو گی جب حکومتی اقدامات سے پورا ملک دھرنوں سے پاک ہو گیا ہو، فیض آباد دھرنے کے قائدین جو تحریر لکھ کر لائے حکومت نے پڑھے بغیر من و عن دستخط کردیئے۔ دلچسپ امر یہ ہے اب تسلیم کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے، ختم نبوت کے نام پر بننے والی سیاسی جماعت کا دھرنا لاہور میں جاری ہے اور ان کے مطالبات کی طویل فہرست پھر سامنے آ گئی ہے۔ لاہور دھرنا والے اسلام آباد کے معاہدے سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فیض آباد دھرنے نے جہاں دوسرے سوالات کو جنم دیا ہے وہاں نیشنل ایکشن پلان کو بھی چیلنج کر دیا ہے؟نیشنل ایکشن پلان کے تحت مساجد میں سپیکر کے استعمال کو کنٹرول کرنے پر عملدرآمد کرایا گیا تھا، محسوس ہوتا ہے وفاقی وزیر داخلہ نیشنل ایکشن پلان سے یکسر لاعلم ہیں۔دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے علماء کے درمیان طے پانے والے سابق معاہدے بھی سوالیہ نشان بن گئے ہیں؟ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی طرف سے سپیکر کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کا جواز دیگر صوبوں میں مساجد میں تین سپیکر کی اجازت ہے، اِسی وجہ سے پنجاب میں اجازت دی جا رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دور سے پہلے کے دور کو اگر سامنے رکھا جائے تو عام آدمی بھی سکتے میں آ جاتا ہے۔ اتنا خوف، اتنی دہشت گردی، اتنی فرقہ واریت، اتنے دھماکے، اتنی خون ریزی، کریڈٹ جنرل راحیل شریف کے ساتھ میاں نواز شریف اور ان کے وزیر داخلہ کو دینا ہو گا۔ اب جبکہ چند ماہ سے خبریں آ رہی تھیں کہ یہودی لابی افغانستان،انڈیا، اسرائیل کی ایجنسیاں پاکستان پر حتمی وار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، ان کو پاکستان کا امن، پاکستان کا سی پیک ایک آنکھ نہیں بھاتا، خبریں شائع ہوتی رہیں دہشت گردوں کو بھاری رقوم دینے کی سوشل میڈیا پر دھوم رہی، پھر بھی سر نہیں جوڑے گئے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر، بارڈر پر پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں اور پھر ختم نبوت کو متنازعہ بنانے کی سازش اِسی سلسلے کی کڑی تھی۔نوازشریف کو فارغ کرکے سی پیک کی سزا بھی دے دی گئی ،مگر سازشیں ہیں کہ رُک ہی نہیں رہیں۔ بات دوسری طرف نکل گئی، ختم نبوت کے نام پر ہر فرد کٹ مرنے اور ختمِ نبوت کے نام پر جان و مال اور اولاد قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ مسئلہ تو پوری اُمت مسلمہ کا ہے، چند سو افراد کا کس نے بنایا،یہ مسئلہ تو پورے عالم اسلام کا ہے پھر صرف ایک جماعت کا کس نے بنایا؟ اس پر ہر فرد کو سوچنا ہے۔ یہ صرف حکومت کے سوچنے کا کام نہیں ہے۔ ختمِ نبوت کے نام پر قوم کا رویہ، مسلکوں کی لڑائی اور خانہ جنگی مسلط کرنے کی کوشش، ایک دوسرے کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے جا رہے ہیں، دوسرے کو معاف کر کے باہمی ایثار کے ذریعے پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بن کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ پوائنٹ سکورنگ کا وقت نہیں ہے، کسی کی فتح و شکست بھی نہیں ہے آئندہ کے لئے آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کی ضرورت ہے، حکومت کو بھی اور عوام کو بھی، اور غلط فہمی میں یا کسی کے دباؤ میں غلط معاہدہ ہو گیا ہے تو اس کو ریاست کی رٹ، اداروں کی آئینی حدود کے تحفظ کے لئے دھرنا قائدین کو دوبارہ بٹھایا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز کے وقار اوراداروں کی عزت کی خاطر، ورنہ دباؤ یا غلط فہمی میں کئے گئے معاہدے کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔