حضرت احسان دانش کی پیش بینی!

حضرت احسان دانش کی پیش بینی!
حضرت احسان دانش کی پیش بینی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ جو غزلوں کے چند اشعار درج کئے گئے یہ حضرت احسان دانش کے پہلے غزلیہ مجموعے ’’رنگِ تغزل‘‘ سے لئے گئے ہیں۔ اسی کتاب میں ایک غزل ہے:
تجھ کو کیا معلوم گزری کس طرح فرقت کی رات
کہہ پھرے اک اک ستارے سے ترا افسانہ ہم
اس شعر میں ذرا اول و آخر ’’ردیف‘‘ ہم کا استعمال ملاحظہ ہو:
کس لئے حیرت میں ہو اے حضرتِ موسیؑ چلو
ہم اٹھائیں گے نقابِ عارضِ جانا نہ ہم


کہا جاتا ہے ’’شاعری جزویسٹ از پیغمبری‘‘ ۔۔۔ اس میں کوئی شک شبے کی گنجائش بھی نہیں کہ شعراء کو الہام ہوتا ہے ہاں مگر اُس کا شاعر ہونا شرط ہے۔ شاعر بھی ہر عہد پر غالب میرزاسد اللہ خان غالب جیسا۔۔۔’’جس نے کہا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے


یا پھر میر انیس لکھنوی جیسا جو بلا تکلف و تردّد مضامینِ نو کے انبار لگاتا جائے اور منادی کرائے:
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو


میرے اُستاد گرامی قدر حضرت احسان دانش بھی ایسے ہی صاحب فن پر گُو، قادر الکلام شاعر تھے، جنہیں اکثر اوقات نظمیں القاء ہوتی تھیں، وہ بھی جوش ملیح آبادی کی طرح سحر خیز تھے۔ ساتھ ہی تہجد گزار بھی تھے، صبح دم دروازۂ خاور اُن کی بیٹھک میں کھلتا تھا اور پھر الہام کی صورت میں نزول اشعار کا سلسلہ ہوتا تھا، انہوں نے ایک نظم ایسی الہامی کہی تھی جو آج کے حالات و واقعات کے تناظر میں پوری طرح منطبق ہو رہی ہے۔ مسدس کی شکل میں اس نظم کی ٹیپ کا مصرع ہے:
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے


’’پیش بینی‘‘ پر مبنی حضرت احسان دانش کی 44 بند کی طویل مسدس میں سے محض چند منتخب بند ملاحظہ ہوں!
میں ریڈیو روز سن رہا ہوں، میں روز اخبار دیکھتا ہوں
ہر اک جریدے کی پشت پر سیم و زر کے انبار دیکھتا ہوں
صحافیوں کے دل و نظر کو نحیف ونادار دیکھتا ہوں
زبان وافکار بک رہے ہیں قلم سے بیوپار دیکھتا ہوں
قلم کا بیوپار کرنے والا کوئی بھی ہو مفتنحر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
تھے جن زمینوں میں لالہ و گُل وہاں فقط خار بس رہے ہیں
نگاہ جس سمت جا رہی ہے بلا کے عیّار بس رہے ہیں
جفا کے خوگر، وفا کے دشمن، وطن کے غدّار بس رہے ہیں
ذلیل، ملت فروش، ارباب کش ریا کار بس رہے ہیں
تمام یہ آج کے جواری ہیں کل پہ ان کی نظر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہاں تو ہر چیز ہے نخالص وہ جانور ہے کہ آدمی ہے
کہیں اندھیرا ہے روشنی میں کہیں اندھیرے میں روشنی ہے
دوائیں ہوں یا غذائیں ہر شے جو بِک رہی ہے وہ دوغلی ہے
یہاں لقب زندگی ہے جس کا وہ اک بالا قساط خودکشی ہے
عوام دن رات مر رہے ہیں خواص پر کچھ اثر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جہاں میں اشراف پس رہے ہیں کہ رہ گئے بے شمار غنڈے
لگے جو موقع تو لوٹ لیتے ہیں روک کر رہگزار غنڈے
بلندمنصب کے دوست، قاتل، حریص طاقت کے یار غنڈے
جو اس طرف دو ہزار تھے تو، تھے اُس طرف دو ہزار غنڈے
نظام کی سب خرابیاں ہیں یہ بات حالات پر نہیں ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
جو اہل زر ہیں وہ غیر ملکوں میں لے گئے کاروبار اپنا
ہمارے سونے کو جانتے ہیں یہاں کے سرمایہ دار اپنا
بہ ایں خیانت، یہاں بھی لوگوں میں چاہتے ہیں وقار اپنا
زمانہ بدلا کرے، مگر یہ نہیں بدلتے شعار اپنا
ہے کون ان میں مدار جس کا عوام کے خون پر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہاں ہے نیلام کی ہر اک شے یہاں محبت بھی بک رہی ہے
یہاں ہیں عصمت فروشیاں بھی یہاں شرافت بھی بک رہی ہے
یہاں تو ہے علم کی بھی آڑھت یہاں تو صحت بھی بک رہی ہے
یہاں وزیروں کی بھی ہے قیمت یہاں وزارت بھی بک رہی ہے
درون بینی کا سب کو دعویٰ مگر کوئی دیدہ ور نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
نہ جانے کس دن عوام بگڑیں خواص ظلم و ستم بڑھا دیں
نہ جانے کس دن یہ جھونپڑوں کے مکیں محلوں کو لڑکھڑا دیں
نہ جانے کس دن غریب گاہک دکان داروں کا زعم ڈھادیں
نہ جانے کس دن خموش فوجیں نظام نو کا علم اٹھا دیں
نظام نو کا جو سیل روکے مجالِ دیوار و در نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جہاں جہاں بھوک حکم دے گی وہیں وہیں انقلاب ہوگا
جلالتوں سے صفیں لگیں گی شقاوتوں کا عتاب ہوگا
نگر نگر قتل گاہ ہوگی، ڈگر ڈگر خونِ ناب ہوگا
اضافہ بیواؤں اور یتیموں میں ہوگا اور بے حساب ہوگا
زمیں کے مالک ہوں یا ملوں کے کسی کو اس سے مفر نہیں ہے!
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
ہر حال میں شکر گزار، حال مست احسان دانش نے اپنے مولا کی یوں بھی شکر گزاری کی:

خوش ہوں میں احسان ہاں خوش ہوں کہ بھولا تو نہیں
بخش دی ہے میرے مولا نے پریشانی مجھے
اس ’’پریشانی‘‘ کو خوش دلی سے قبول کرنے کے باوجود ایک دور ایسا بھی آیا کہ شاعر مزدور احسان دانش نے اپنی ایک کتاب ’’فصلِ سلاسل‘‘ جنرل ضیاء الحق کے نام معنون کی۔۔۔!

مزید :

کالم -