افواجِ پاکستان اور نفاذِ اُردو!
آج کل میڈیا کی رسائی گلوبل ہو چکی ہے اور اس رسائی میں زبان ایک اہم وسیلہ ہے۔ باقی زبانوں کے مقابلے میں انگریزی کو اِس لئے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ دُنیا کی واحد سپر پاور کی زبان بھی انگریزی ہے۔ امریکہ کی اصل قوت اس کی ملٹری فورسز ہیں لیکن ملٹری اور معیشت کا آپس میں جو گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس دورے نے دُنیا کو ایک بار پھر اس حقیقت سے آشنا کر دیا ہے کہ عسکری قوت اقتصادی قوت کی محتاج ہے۔ٹرمپ نے380ارب ڈالر کا جو معاہدہ سعودی عرب سے کیا ہے اس کے خدوخال کا جائزہ لیں تو ’’شمشیر و زر‘‘ کا باہمی تعلق واضح ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی شمشیر جس قدر مضبوط ہے ’’قوتِ زر‘‘ اتنی مضبوط نہیں۔ ایران کے پاس قوتِ زر ہے لیکن وہ قوتِ شمشیر کو مضبوط بنانے کا جو پروگرام رکھتا ہے اس میں ابھی تک اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب کی قوتِ زر اور قوتِ شمشیر کی مساوات کے دو اجزا میں سے ایک اس کا اپنا پیدا کردہ یا پیدا شدہ ہے، جبکہ دوسرا ’’مانگے تانگے‘‘ کا ہے۔اربوں ڈالر کا دفاعی معاہدہ کس کام کا، جب دفاعی قوت اپنی پیدا کردہ نہ ہو؟۔۔۔یہ عجیب صورتِ حال ہے کہ اس خطے کے تین مسلمان ممالک(پاکستان، ایران اور سعودی عرب) ایک ایسی ناہموار مساوات(Equation) کے اجزائے ترکیبی ہیں جن میں اگر باہم تخلیقی قوت موجود ہوتی تو وہ امریکہ تو شائد نہ بن سکتے، شائد روس اور چین بھی نہ بن سکتے،لیکن جرمنی، فرانس اور برطانیہ تو بن سکتے تھے!۔۔۔ مقامِ افسوس ہے کہ پاکستان کا ترکش اگر مضبوط ہے تو ٹکسال کمزور ہے، ایران کی ٹکسال مضبوط ہے تو ترکش مضبوط نہیں اور سعودی عرب کی ٹکسال بھری ہوئی ہے تو(اپنا) ترکش خالی ہے۔
طاقتور اور ماڈرن مغربی ممالک کی نگاہیں ہمیشہ سعودی عرب اور ایران پر مرکوز رہتی ہیں۔ وہ ممالک اپنے ترکش کی مضبوطی کے لئے ایران اور سعودی عرب کی ٹکسالوں کو دیکھتے ہیں اور آپ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ ہر 12،15 برس بعد ان کی پسند و ناپسند اور ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی ایک سال پہلے اوباما کے دور میں آپ نے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات کی جو مساوات دیکھی تھی، آج وہ تقریباً ایک معکوس صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس تبدیل�ئ معکوس میں 12،15 برسوں کی مدت حائل نہیں، صرف15،20 ہفتے ہی حائل ہیں۔
پاکستان پر اللہ کریم کی خاص عنائت ہے کہ اس کی ٹکسال اگرچہ ہمیشہ خالی رہتی ہے لیکن اس کی دو چیزیں ایسی ہیں جو اس کے افلاس کا کتھارسس کر دیتی ہیں۔یہ دو چیزیں اس کی جغرافیائی لوکیشن اور اس کی خانہ ساز (Indigeneus) عسکری قوت ہے۔ اس عسکری قوت میں اس کی جوہری اور میزائلی استعداد کے علاوہ وہ اوور آل فوجی استعداد ہے جس کا مقابلہ نہ ایران کر سکتا ہے اور نہ سعودی عرب۔ اس بظاہر ننگ دھڑنک اور درویش پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے میں اس کی وہ افرادی قوت مرکزی اہمیت کی حامل ہے جو عالمی اقتصادی اور عسکری منظر نامے کو زیر نگاہ رکھتی ہے اور اس مقام تک پہنچانے میں اس کی افرادی قوت کی وہ لسانی لچک پیش پیش ہے جو عربوں اور ایرانیوں کو کم کم نصیب ہے۔ اہلِ برطانیہ نے ہم اہلِ برصغیر سے بہت کچھ چھینا تھا لیکن اپنی زبان دے کر ہم پر ایک ایسا احسان کیا جو ہمیں موجودہ مقام تک لانے میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ انگریزوں کی دو صد سالہ غلامی نے ہم سے بہت سی قوتیں سلب کر لی ہوں گی،لیکن انگریزی زبان کی قوت کا جو استعمال پاکستان نے کیا، اس کا خواب بھی کبھی برطانوی پارلیمینٹ کے کسی مکالے نے نہیں دیکھا ہو گا!
مَیں سوچتا ہوں اگر آج پاکستان کی لسانی اساس میں انگریزی زبان کی کنکریٹ شامل نہ ہوتی تو نہ علامہ اقبالؒ ، مفکر پاکستان بن سکتے اور نہ قائداعظم بان�ئ پاکستان کہلا سکتے۔ ان ہستیوں کے جبلّی شعور سے انکار نہیں لیکن اس شعور کو نکھارنے، سنوارنے اور صیقل زدہ کرنے میں انگریزی زبان کا بڑا حصہ ہے اور اگر ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کر دوں تو شائد بے جا نہ ہو کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو انگریزی زبان کی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو پاکستان آج جوہری اور میزائل استعداد سے اتنا ہی دور ہوتا جتنا ایران اور سعودی عرب ہیں!
قارئین سے یہ بھی گزارش کرنی چاہتا ہوں کہ اس کالم کا مقصد انگریزی زبان کی قصیدہ گوئی ہر گز نہیں۔ مَیں نے ساری عمر اُردو کی قصیدہ خوانی میں گزار دی۔لیکن مَیں اپنے کالموں میں کئی بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں اُردو زبان کی محبت کا اسیر ہو کر انگریزی زبان کے احسانات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جن فاضل جج صاحبان نے(سپریم اور ہائی کورٹ دونوں) اُردو زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا یا پھر اسے اس وقت تک ملتوی کر دیا جب تک مطلوبہ فنی استعداد حاصل نہ کر لی جائے،ان کی اپنی تعلیم و تربیت بھی ایسے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوئی جن کی زبان انگریزی تھی۔ اُردو بے شک پاکستان کی قومی زبان قرار دے دی جائے لیکن اس کے عملی نفاذ میں جو دشواریاں آ سکتی ہیں ان کو حل کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔بڑے افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ہم اُردو کی محبت کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن اس میں شعرو شاعری، سیاست اور مذہب کے علاوہ ان ثقہ بند مضامین کی طرف رخ نہیں کرتے جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔یعنی دفاعی اور اقتصادی مضامین و موضوعات پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔۔۔۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ خزانہ کو اس طرف جلد از جلد توجہ دینی چاہئے۔ یہ ارادی تغافل خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
قارئین جانتے ہیں کہ برصغیر میں اُردو کی اساس بھی زبانِ فارسی ہے اور ایران و افغانستان کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں (CARs) کی ایک غالب تعداد میں بھی فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ایران اور افغانستان کی تو سرکاری زبان ہی فارسی ہے۔لیکن ایرانیوں نے جس دلسوزی اور محنت کے ساتھ حالیہ برسوں میں انگریزی زبان کی تحصیل کی ہے وہ قابلِ صد تحسین ہے۔ آج سینکڑوں، ہزاروں ایرانی طلبا امریکہ کی کئی فنی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔مَیں نے ایرانی وزیر خارجہ جناب جواد ظریف کو انگریزی میں بحث و مباحثہ کرتے سُنا تو مجھے1990ء کی دہائی کے ایرانی وزیر دفاع علی شام خانی یاد آئے۔ان کا تعلق آباد ان سے ہے۔ بڑا دبنگ لب و لہجہ ہے۔ مَیں نے ایک سے زیادہ بار ان کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں انٹر پریٹر کے فرائض ادا کئے۔لیکن جناب جواد کو انگریزی پر جو عبور حاصل ہے وہ جنابِ شام خانی کے مقابلے میں کہیں برتر اور بہتر ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایران اور جوہری ممالک (بشمول جرمنی) ایران کی جوہری اہلیت پر آپس میں مذاکرات کر رہے تھے تو جناب جواد نے بطورِ وزیر خارجہ، ایرانی حکومت کا جو نقط�ۂ نظر پیش کیا اس کی وجہ ہی سے وہ تاریخی معاہدہ تشکیل پایا جو اب ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔
ایران کی قوم پرستی مشہور ہے لیکن جن برسوں میں (1980ء اور1990ء کے عشرے) میں، مجھے بطور مترجم ایرانیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو تقریباً تمام حکومتی وزراء اور فوجی جرنیلوں نے مجھے بار بار پیشکش کی کہ جب فوج سے ریٹائر ہو جاؤں تو تہران میں کسی ایرانی عسکری درس گاہ (اکیڈمی) میں ایک معقول عہدہ کو قبول کرنے پر غور کروں۔
انہی ایام میں میری کور کے بہت سے آفیسرز سعودی عرب(ریاض) میں ملٹری اکیڈمی کے انسٹرکٹرز کے طور پر جایا کرتے تھے۔ یہ عمل پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں کی دفاعی وزارتوں کے درمیان ایک معاہدے کا حصہ تھا۔لیکن جب وہ آفیسرز واپس پاکستان آ گئے تو مَیں نے ان کو دوبارہ(ریٹائرمنٹ کے بعد) کسی سعودی عسکری درس گاہ میں جاتے نہیں دیکھا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے پچھلے دِنوں اربوں ڈالر کے جو دفاعی اور نیم دفاعی سودے کئے ہیں ان میں کوئی ایسا معاہدہ شامل نہیں، جس میں سعودی کیڈٹوں کی غالب تعداد کو ویسٹ پوائنٹ(West Piont) یا دوسری امریکی عسکری درس گاہوں(نیوی اور ائر فورس کو بھی ان میں شامل کر لیں) میں بھیجا گیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی افواج مستقبل قریب وبعید میں بھی جس امریکی دفاعی سازو سامان پر انحصار کریں گی ان کی آپریٹ کرنے کی اہلیت و صلاحیت اُس سطح کی نہیں ہو گی جیسی ایرانیوں کی ہے۔ ایرانی نہ صرف امریکی بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک(بشمول روس) کی عسکری اکیڈمیوں کا بھی رُخ کر رہے ہیں، بلکہ بھارت اور چین کی درس گاہیں بھی ان کے مرغوب تربیتی ٹارگٹ ہیں۔
پاکستان میں بالخصوص دفاعی شعبوں میں نفاذِ اُردو کے معاملے میں جب بھی کوئی پیشرفت کی جائے تو میری ان معروضات پر ضرور توجہ دی جائے کہ ہم نے اُردو اور انگریزی میں رقابتیں نہیں،رفاقتیں تلاش کرنی ہیں!