’’ آئی ایس پی آر کا ٹویٹ‘‘

’’ آئی ایس پی آر کا ٹویٹ‘‘
’’ آئی ایس پی آر کا ٹویٹ‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میجر جنرل آصف غفور ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر نے ٹویٹ کیا اور ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے پیرانمبر 18کے مطابق ایوان وزیراعظم سے تین سیکرٹریوں کو دی جانے والی سفارشات کو مستر د کر دیاجس میں وزارت خارجہ کے معاون خصوصی طارق فا طمی اور حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو عہدوں سے ہٹانے اور کارروائی کرنے کا کہا گیا۔ آصف غفور تو یہ ٹویٹ کر کے تادم تحریر لانگ ویک اینڈ پر ہیں ہیں، مگر اس ایک سو چالیس حروف میں محدود اس سوشل میڈیا پیغام نے بہت ساروں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ کچھ کی نیندیں خوشی کے مارے اڑیں، یہ سول ملٹری ریلیشن شپ میں بگاڑ چاہتے ہیں،بلکہ یہ الفاظ تو بہت نرم ہیں وہ آئینی اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیندیں نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری اور ان کے جمہوریت بارے خیالات سے آگاہی کے بعد اڑی ہوئی تھیں کہ اب وہ اپنی سازشی تھیوریاں کیسے بیچ پائیں گے، مگر اس ایک ٹوئیٹ نے ان کے چہروں کی رونق دوبالا کر دی ہے۔ وہ موجودہ صورتِ حال کو پاناما لیکس کے فیصلے سے جوڑتے ہوئے حکومت کے لئے مشکل ترین وقت آنے کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں ، یہ بات الگ ہے کہ ان کی نظر میں ہر وقت حکومت کے لئے ایک مشکل وقت ہوتا ہے اور آنے والا مشکل ترین، نجانے وہ اپنی دانشوری کی نظر چیک کیوں نہیں کرواتے۔ وہ تمام لوگ جو اس ٹوئیٹ کا دفاع کر رہے تھے وہ بھی بنیادی حقائق سے لاعلم تھے، وہ بغض معاویہ کا شکار ہو کر لمبے لمبے مکالمے جھاڑ رہے تھے، مگرانہیں یہ علم نہیں تھا کہ ایوان وزیراعظم سے لیک ہونے والے مکتوب میں کیا کمی اور تشنگی ہے، وہ تیر چلا رہے تھے، تکے لگا رہے تھے۔


نیندیں تو جمہوریت پسندوں کی بھی اڑی ہیں، وہ سمجھ رہے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کو سلامتی کے ساتھ بیرون ملک روانگی اورجنرل راحیل شریف کو ایران کی ناراضی کے باوجود سعودی فوجی اتحاد میں شرکت کی اجازت کے بعد معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے ہیں، مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ جب ایک مرتبہ انصاف اور میرٹ کی بجائے معاملہ کچھ لو اور کچھ دو سے طے ہوتا ہے تو پھر یہ سلسلہ کبھی نہیں تھمتا، سیاسی حکومتیں اگر یہ سلسلہ ختم کرنا چاہیں تو خود ختم ہوجاتی ہیں۔ تلخ اور ناپسندیدہ ماضی کی بحث سے باہر نکلتے ہوئے موجودہ ٹوئیٹ کئی حوالوں سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور سب سے اہم حوالہ یہی ہے کہ کیا حکومت اور فوج کے درمیان گفتگو ٹوئیٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا یابھانت بھانت کی بولی بولنے والے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہونی چاہئے۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی میاں شہباز شریف ، اسحاق ڈار اور چودھری نثار علی خان سمیت پاک فوج کے خیرخواہ اور دوست موجود ہیں جو اس کے مفادات کی پاسداری کرنے کے لئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔ یہ معاملہ ٹوئیٹ کرنے کی بجائے ان کے سامنے بھی رکھا اورحل کیا جا سکتا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ میجر جنرل آصف غفورنے اپنے اس ٹویٹ کے ذریعے اپنے آپ کو ایک ہی لمحے میں لیفٹیننٹ جنرل ( اب ریٹائرڈ) عاصم باجوہ کے ساتھ لاکھڑا کیا ہے۔ اسی ٹوئیٹ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آرمی چیف کی سوچ جو بھی ہو، مگر فوج کی بطور ادارہ سوچ اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔


میجر جنرل آصٖف غفور کے ٹوئیٹ نے ٹوئیٹر پر ٹرینڈز بھی قائم کئے ، جہاں شیخ رشید احمد ویل ڈن پاک فوج کا ٹرینڈ چلا رہے تھے وہاں اس کے مقابلے میں آئی سپورٹ مائی پرائم منسٹر کا ٹرینڈ بھی چل رہا تھا۔ میں نے چند رو ز پہلے وینا ملک کا ایک گانا بھی اپنی افواج کے لئے دیکھا اور سوچا کہ میری پروفیشنل اور محب وطن فوج کو زندگی کے مختلف شعبوں میں شیخ رشید اور وینا ملک جیسے لوگ ہی کیوں ملتے ہیں۔میں ایک عام سا شخص ہوں اور میرے سوشل میڈیا پر فالوئنگ کی تعداد بھی معمولی ہے مگر میں یہ برداشت نہیں کرتا کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرامیری بات پر اپنی رائے کا اظہار کرتا پھرے کیونکہ مخصوص معاملات پر رائے کا حق صرف اور صرف اس معاملے کی جانکاری رکھنے والوں کو ہی ہونا چاہئے لیکن دوسری طرف ہماری حکومتوں اور ہمارے اہم ترین اداروں کو اس کے ذریعے رائے عامہ کے تجزئیے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ میں جس وقت یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں اس ٹوئیٹ کو چوبیس گھنٹوں کے اندردس ہزار کے قریب اپنے تبصروں کے ساتھ ری ٹوئیٹ کر چکے ، آٹھ ہزار کے لگ بھگ رپلائی دے چکے۔ میں چاہوں گاکہ فوج ایک باوقار اورذمہ دار ادارے کے طور پر ان تمام جوابات کا ایک تجزیہ ضرور کرے کہ اس ٹوئیٹ کوعوامی، سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر کس طرح دیکھا گیا ہے، اس نے اس ٹوئیٹ کے ذریعے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ یہ امر حقیقت کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی مسلح افواج سے محبت اور عقیدت کا رشتہ رکھتی ہے مگر یہ محبت ذمہ داری بھی دیتی ہے کہ وہ اسے داخلی سطح پر آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ میں نے اس ٹوئیٹ کی حمایت کرنے والوں کی پروفائلز دیکھی ہیں جہاں بہت سارے محض موجودہ حکومت سے نفرت میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فوج کو مداخلت کی دعوت برس ہابرس سے دے رہے ہیں اور جب جنرل راحیل شریف ملک میں مارشل لا لگائے بغیر رخصت ہوئے تو ان میں سے بیشتر کا غم وغصہ دیکھنے والا تھا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف کی حکومت فوج ختم کر دے گی تو اس کے ساتھ ہی اقتدار عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔ افسوس ،یہی لوگ عمران خان کی بھارت میں اس تقریر کا بھرپور دفاع کرچکے جس میں اس نے کہا تھاکہ پاک فوج نے بنگلہ دیش،فاٹا، وزیرستان اور بنگلہ دیش میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا، ہماری فوج کو ان نادان دوستوں سے بچنا ہو گا۔


مجھے آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹ کے رپلائی دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ تشویش بھارت سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں کے لوگوں کے پروپیگنڈے پر ہوئی۔ کیا یہ امر حقیقت نہیں کہ اس ٹوئیٹ کے بعد بہت سارے میراثیوں نے پگوں اور بہت سارے ہیجڑوں نے شیروانیوں کے آرڈر دینا شروع کر دئیے۔ یہاں ہمیں ایک اور اہم نکتے کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ایک سیاسی حکومت تو آئی ایس پی آر کے دباؤ میں آ کر دفاعی نکتہ نظر اختیار کر سکتی ہے لیکن ’ ڈان‘ جیسے بین الاقوامی شہرت کے حامل اخبار کو قابو میں نہیں لایا جا سکتا چاہے یہ کوشش اے پی این ایس جیسے پروفیشنل اداروں کے ذریعے ہی کیوں نہ کر لی جائے ۔یہاں پی ایف یوجے کا ردعمل بھی سامنے آچکا ۔ میجر جنرل آصٖف غفور کا اپنا پرسنل ٹوئیٹر اکاونٹ ’’ پیس فار چینج‘‘ کے ہینڈلر کے ساتھ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر امن کو کتنی اہمیت دیتے اور اسے تبدیلی کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ امن کے اپنے بہت سارے پہلو ہوتے ہیں۔ امن صرف بموں اور بندوقوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی دہشت گردی کے خاتمے کا نام نہیں، جدید دنیا میں یہ اصطلاح اپنے مفہوم، اثرپذیری اور نتائج کے حوالے سے صنعتوں سے لے کر ملک کے تمام اداروں کے درمیان تعلقات تک پھیل چکی ہے۔ اب اگر ہمیں پاکستان کو واقعی ایک جدید فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا ہے تو پھر ہمیں یہاں مکمل اورغیر مشروط امن لانا ہو گا۔میں چاہوں گا کہ آصف غفور اپنے 22اپریل کے ٹویٹ سے رجوع کریں، ہم ان سے اپنے ملک کے لئے بہت کچھ اچھاکرنے کی بہت زیادہ امید رکھتے ہیں

مزید :

کالم -