جمہوریت کا نام ہے تم سے سدا بہار

جمہوریت کا نام ہے تم سے سدا بہار
 جمہوریت کا نام ہے تم سے سدا بہار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محترمہ فاطمہ جناحؒ کا صرف یہ اعزاز ہی نہیں کہ وہ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ تھیں، بلکہ وہ اپنی ذات میں بھی بے مثال قائدانہ صلاحیتیں رکھتی تھیں۔ تحریک پاکستان میں خواتین کو منظم، فعال اور متحرک کرنا محترمہ فاطمہ جناحؒ کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ وہ عزم راسخ، فراست، بصیرت، ایمان داری اور اخلاص جو قائد اعظمؒ کی منفرد شخصیت کی پہچان تھے، یہ سب اوصاف محترمہ فاطمہ جناحؒ میں بھی موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان کے بعد پاکستان میں جمہوری اقدار اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جنگ میں بھی فاطمہ جناحؒ کا کردار سب سے ممتاز اور نمایاں رہا۔ فاطمہ جناح خود کبھی پاکستان کی حکمران نہیں رہیں، لیکن پاکستان کی ترقی، حفاظت اور خوشحالی کا نصب العین کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا اور انہوں نے پاکستان کے ایسے حکمرانوں کو ہمیشہ کھل کر اپنی بے لاگ تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے عوام کو حقیقی آزادی اور ان کے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی۔


محترمہ فاطمہ جناحؒ کے دل میں کبھی اقتدار کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوئی، لیکن ان کی شخصیت کبھی خوف اور مصلحت کا شکار بھی نہیں ہوئی۔ جن حکمرانوں نے بھی جمہوری اداروں اور روایات کو ملک میں کمزور کرنے کی سازشیں کیں، فاطمہ جناح نے ان حکمرانوں کا جرأت مندی اور ایمانداری سے محاسبہ کیا، کیونکہ ان کو اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں چاہئے تھا۔ ان کو اگر کچھ عزیز تھا تو وہ پاکستان کا قومی مفاد تھا اور پاکستان کے اجتماعی مفاد کی خاطر فاطمہ جناحؒ اپنی جان کو خطرے میں بھی ڈال کر ایسی سچائی کے اظہار سے گریز نہیں کرتی تھیں، جس کو قومی مفاد کے لئے ناگزیر خیال کرتی تھیں۔ قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر جس بھی فیصلے کو محترمہ فاطمہ جناح درست سمجھتیں، وہ اس پر مضبوط چٹان کی طرح قائم رہتیں اور کبھی کسی خوف اور لالچ کے باعث ان کے پایۂ استقلال میں لغزش پیدا نہیں ہوئی۔محترمہ فاطمہ جناحؒ اس افسوسناک صورت حال پر ہمیشہ غم زدہ بھی رہیں کہ قائد اعظمؒ کے بعد ہم نے ان کے اصولوں اور آدرشوں کو فراموش کردیا اور ہم نے وہ راستہ اور تعلیمات چھوڑ دیں، جن کے مطابق قائد اعظمؒ پاکستان کو تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قائد اعظمؒ کے بعد ہر حکمران کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی آزادی کا مقصد محض مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کا قیام نہیں تھا، بلکہ مملکت پاکستان کی تخلیق ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے تھی اور وہ مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی آزاد اور خود مختار مملکت میں اپنی تہذیب اور ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں اور جہاں ہم اسلامی سماجی انصاف کے اصولوں پر عمل کرسکیں۔


فاطمہ جناحؒ اپنے خطابات میں ان حالات پربھی ہمیشہ افسوس اور تشویش کا اظہار کرتی رہیں کہ وہ قوم جس نے انسانی تاریخ کی شدید ترین مخالفت کے باوجود ایک مختصر مدت میں اپنے لئے ایک آزاد مملکت حاصل کرلی۔ اب وہ قوم اس جوش و جذبے سے کیوں محروم کردی گئی جو کہ ایک نئے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے بہت ضروری تھا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کہا کرتی تھیں کہ پاکستانی قوم میں تو وہی خصوصیات اور صلاحیتیں موجود ہیں جو تحریک پاکستان کی کامیابی کا سبب بنیں، لیکن قائد اعظمؒ کے بعد ذاتی اغراض اور اقتدار کی خواہشات غالب آگئیں، جس وجہ سے قوم کی امیدیں مایوسی میں تبدیل ہوگئیں اور وہی قوم جس نے قائد اعظمؒ کی عظیم قیادت میں آزادی کی جدوجہد کی راہ میں آنے والے پہاڑوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ اب اس قوم کے ولولے مرجھاکر رہ گئے ہیں۔1957ء میں فاطمہ جناحؒ نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کے عدم استحکام اور ترقی و خوشحالی کی منزل سے محروم رہنے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ملک کی تقدیر پر وہ حکمران قابض ہو چکے ہیں، جو نہ تو پاکستان کے بنیادی نظریے پریقین رکھتے ہیں اور نہ ہی حصولِ پاکستان کی تحریک میں جن کا کوئی کردار تھا۔ قیام پاکستان کے چند سال کے بعد ہی یہاں ملک غلام محمد اور سکندر مرزا جیسے حکمرانوں کے مسلط ہو جانے سے ہماری تیرہ بختی کا آغاز ہوگیا۔ ذاتی اغراض اور اقتدار کے حریص ان حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی چلی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح جو پاکستانی قوم کی ماں بھی تھیں، ان کے لئے قوم کے یہ دکھ ناقابل برداشت تھے۔


فاطمہ جناحؒ نے اس دور میں فرمایا کہ پاکستان کی آزادی کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ یہاں کچھ خود غرض لوگ غیر جمہوری راستوں سے ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن جائیں اور ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چند لوگ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جائیں اور باقی ساری قوم غربت اور محرومیوں کی چکی میں پسنے کے لئے چھوڑ دی جائے۔ فاطمہ جناحؒ کا یہ موقف تھا کہ ہماری قوم کی سیاسی آزادی معاشی و خوشحالی کے بغیر بے معنی ہے، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قوم کو سیاسی حقوق سے بھی محروم رکھا جارہا ہے اور عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ ہم بطور قوم اس وقت تک ایک آزاد اور باوقار قوم کہلانے کا حق نہیں رکھتے، جب تک ہمارے ملک کے عام شہری ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہوجائیں۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی یہ دو ٹوک رائے تھی کہ جب تک ہم ملک میں اسلامی سماجی انصاف کے اصولوں کو جاری و ساری کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے، اس وقت تک حصول آزادی کے تقاصے پورے نہیں ہو سکتے۔ ہم جب تک اس ملک کے عام آدمی کو روزگار، معاشی خوشحالی، عزت، جان و مال کا تحفظ، صحت اورتعلیم کی سہولتوں کی ضمانت نہیں دے سکتے، اس وقت تک ہم یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ ہماری غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے یہ دیکھنا ہو کہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل میں ہم کِس حد تک کامیاب ہوئے ہیں تو ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ہم غریب عوام کی زندگیوں میں کہاں تک بہتری لاسکے ہیں اور ان کے دامن کو خوشیوں سے بھرچکے ہیں۔


محترمہ فاطمہ جناحؒ فرمایا کرتی تھیں کہ اگر ہمارے ملک میں جمہوری اداروں کو نارمل اور معمول کے طریقوں سے کام کرنے دیا جاتا اور حکمران خود کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تو ہمارے ملک میں کبھی غیر یقینی صورت حال پیدا نہ ہوتی اور نہ ہی قومی اتحاد اس طرح پارہ پارہ ہوتا، جس طرح سکندر مرزا اور بعد میں جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کی وجہ سے ملک کے استحکام اور سلامتی کو نقصان پہنچا۔ جب عوام کی رائے اور منشا کو نظر انداز کرنا شروع کردیا جاتا ہے اور جب ریاست کے جمہوری اداروں کو مستحکم نہیں ہونے دیا جاتا تو پھرریاست مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کا ارشاد تھا کہ ایک جمہوری ملک کی لازمی شرط یہ بھی ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہو اور بادشاہ سے لے کر عام آدمی تک سب کو قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑے۔ جب بلند سے بلند مرتبہ رکھنے والا شخص اور طاقتور ترین ادارے سب قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں گے اور قانون کا احترام نہ کرنے والے افراد چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں، سزا سے نہیں بچیں گے تو پھر ملک ترقی کرتے اورمضبوط ہوتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے جنرل ایوب خان کی اس سوچ اور عمل کو ملک کے لئے خطر ناک قرار دیا تھا کہ جس ملک کی تخلیق ہی خالص جمہوری جدوجہد اور تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوئی، اس ملک کے عوام کو بالغ رائے دہی کے حق اور اپنے نمائندے براہ راست اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب کرنے کے عمل سے محروم کردیا گیا ہے۔


اگر آزادی سے قبل مسلمانوں کو براہ راست اپنے ووٹ کے استعمال کا حق نہ دیا جاتا تو پاکستان کا قیام کبھی ممکن نہ ہوتا۔ یہ خطر ناک بلکہ شرمناک بات بھی ہے کہ جنرل ایوب خان خود کو عقل و دانش کا نمونہ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام براہ راست اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جب عوام کو اپنے سیاسی نمائندے براہ راست ان کے ووٹوں سے منتخب کرنے کا حق نہیں دیا جائے گا تو پھر سیاست دان خود کو عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ اس کے نتیجے میں وہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو آخر کار ملک و قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ملک میں اخوت و مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی نظام بھی اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے، جب سیاسی نمائندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ یہ ملک اس لئے حاصل نہیں کیا گیا تھا کہ یہاں چند مراعات یافتہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کرلیں اور ان کا نصب العین عوام کی ترقی کے بجائے صرف اپنے لئے جائزو ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنا قرار پاجائے۔ جب تک ملک کے امور سرانجام دینے میں عوام کی رائے کو فوقیت نہیں دی جائے گی اور جب تک جمہوری طریقوں سے ملکی نظام کو نہیں چلایا جائے گا، اس وقت تک یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ملک کے حکمران عوام کی ضرورتوں، حاجتوں اور خواہشات کے مطابق کام کریں گے۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے فرمایا کہ میں قائد اعظمؒ کے اصولوں اور نظریات کو نظر انداز کرنے پر خاموش نہیں رہ سکتی اور نہ ہی ان خود غرض، بددیانت اور آمرانہ طرز عمل رکھنے والے حکمرانوں کی قوم دشمن پالیسیوں پر چپ رہوں گی، جنہوں نے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے ، خاص طور پر عوام کا یہ حق بھی غصب کردیا ہے کہ اب عوام اپنی قیادت اور راہنمائی کے لئے اپنے نمائندے بھی خود منتخب نہیں کرسکتے۔ جب جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں عوام پر ایک خوف مسلط تھا اور فوجی آمریت کے خلاف کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں تھی، اس وقت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ جنرل ایوب خان کے ظلم، دھاندلی، دھونس اور مکروفن کا مقابلہ خود کریں گی اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کی بے لگام فسطائیت کا راستہ روکنے کے لئے صدارتی انتخابی معرکے میں خود حصہ لیں گی۔ قوم نے والہانہ طور پر محترمہ فاطمہ جناحؒ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ عوام کے جوش و جذبے اور قائد اعظمؒ کی ہمشیرہ فاطمہ جناحؒ سے محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جنرل ایوب خان کو اپنی شکست دیوار پر لکھی ہوئی نظر آنے لگی۔ اگر یہ الیکشن عوام کے براہ راست ووٹوں سے ہوتا تو جنرل ایوب خان کی عبرتناک شکست یقینی تھی۔ عوام کے بجائے صرف اسی ہزار بی ڈی ممبران کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ ان ووٹروں کو ڈرانا، دھمکانا، خریدنا اور جھکانا ایک آسان کام تھا۔ جنرل ایوب دھونس اور دھاندلی کے ذریعے یہ الیکشن تو جیت گئے، لیکن عوام کی نظروں میں ان کی عزت، وقار اور ساکھ سب کچھ ختم ہو کر رہ گئے۔


محترمہ فاطمہ جناحؒ کی جرأت اور للکار کے باعث جنرل ایوب خان کی حکومت اندر سے بالکل کمزور ہوگئی۔ عوام کو یہ دکھ تھا کہ قائد اعظمؒ کی بہن کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے شکست دی گئی ہے اور جنرل ایوب خان کی ’’فتح‘‘ مصنوعی ہے۔ عوام نے جنرل ایوب خان کے ظلم، دھونس اور دھاندلی کا بدلہ کچھ سال بعد ہی ایک تحریک کی صورت میں لے لیا اور جنرل ایوب خان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ مادرِ ملت اس تحریک سے پہلے ہی اگرچہ وفات پاچکی تھیں، لیکن عوام میں ایک فوجی آمر کے خلاف جدوجہد کی ہمت، حوصلہ، جرأت اور ولولہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی وجہ ہی سے پیدا ہوا۔ جنرل ایوب خان کو اگر عوام کی طاقت کے سامنے اپنا سر جھکانا پڑا تو یہ فتح دراصل فاطمہ جناحؒ ہی کی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے عوام کے دلوں سے آمریت کا خوف ختم کردیا تھا۔ مادرِ ملت اگرجمہوری تحریک کی خود قیادت کرنے پر آمادہ نہ ہوتیں تو فوجی آمریت کی تاریک رات کبھی ختم نہ ہوتی۔ آج بھی اگر ملک میں جمہوریت جس انداز اور جس شکل میں بھی موجود ہے، جمہوری ادارے جس بھی حال میں کام کررہے ہیں اور چمنستانِ پاکستان میں جمہوریت کی جو بھی بہار اپنا وجود رکھتی ہے، اس میں ہم مادرِ ملت کے جمہوری سفر کو نظر اندازنہیں کرسکتے۔ اس ملک میں آمریت کی ظلمت کے خاتمے اور صبح جمہوریت کے طلوع کا ذکر جب بھی ہوگا، فاطمہ جناح کا کردار، ثابت قدمی اور اصول پسندی ہمیں ضرور یاد آئے گی۔

مزید :

کالم -