’’دی کنٹریکٹر‘‘
یہ غالباً ستائیس جنوری 2011 کی دوپہر تھی جب میں سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں ایک کولیگ کی عیادت کے لئے پہنچا تھا، ہمارے ساتھی رپورٹر لاہور میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے ایک آپریشن میں کوریج کے دوران پتھراؤ سے زخمی ہو گئے تھے،ٹراما سنٹر میں غیر معمولی رش تھا،میرے ساتھ پروگرام پروڈیوسر عدنان رانا اور کچھ دوسرے ساتھی بھی تھے جب ہم نے ایمرجنسی میں دو زخمیوں کوسٹریچر پر جلدی سے آپریشن تھیٹر کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا، ایک کے موٹے پیٹ سے قمیض پھاڑی جا چکی تھی جو خون سے بھری ہوئی تھی، میری نظر اس کی چالیس ، بیالیس انچ کی کمر پر تھی جس پر ایک گولی کا سوراخ اورریوالور کا خالی ہولسٹر تھا ، ریوالور غالباً ان پولیس والوں کی تحویل میں تھا جو انہیں ہسپتال میں لائے تھے، میں نے جسے غور سے دیکھا تھا وہ اس وقت سانس لے رہا تھا۔ ہم اپنے زخمی دوست کو ڈھونڈ رہے تھے مگر ایک بات پر ہمارا اتفاق تھا کہ یہ دونوں شخص لٹیرے ہیں، ان کا حلیہ اس کی چغلی کھا رہا تھا۔
ہمیں بعد میں پتا چلا کہ ان دونوں کے نام فیضان اور فہیم تھے جنہیں ریمنڈ ایلن ڈیوس نامی ایک امریکی نے مزنگ چونگی جیسے بھرے چوک میں گولیاں ماری ہیں جو سی آئی اے کی کنٹریکٹر فرم ’’ ژی‘‘ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا جو بلیک واٹر کے نام سے بھی شہرت رکھتی ہے، کہا جا رہا تھا کہ دونوں مقتولین بلیک واٹر کے ایجنٹ کا پیچھا کر رہے تھے، اس نے شبہ ہونے پر انہیں بھون ڈالا تھا، میں نے سوچا کہ کیا ایک امریکی ایجنٹ اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا تعاقب اور نگرانی کرنے والوں کو ایک مصروف چوک میں قتل کر ڈالے جبکہ اس کے پاس موقع موجود ہو کہ وہ انہیں کسی سنسان اور ویران جگہ پر بھی اسی مہارت سے گولیاں مار سکتا تھا جس مہارت سے وہاں ماریں۔ہمارے پاس پروگرام کرنے کے لئے مواد آگیا تھا۔ حکومت اور امریکہ مخالف کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے جیسے وہ آج بھی ریمنڈ ڈیوس کی پھانسی کو ہی اصل نظریہ پاکستان قرار دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ آج سے ساٹھ برس پہلے نظریہ پاکستان سمجھ آیا تھا اور نہ ہی آج آ رہاہے، طالبانیت کی محافظت ان کی نظر میں نظریہ پاکستان ہے، ہمارے یہ مہربان اپنے نظریاتی تعصب کی بنیاد پر عافیہ صدیقی کی زندگی کے حقیقی واقعات بھی پڑھنے اور جاننے کے مکلف نہیں ، خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔
ریمنڈ ایلن ڈیوس نے اب ایک کتاب لکھ ماری ہے جس میں اس نے پاکستان میں گرفتاری سے رہائی تک کا واقعہ اپنے نقطہ نظر، اطلاعات اور موقف کے مطابق تحریر کیا ہے۔اس نے ریٹائرڈ جنرل شجاع پاشا کو جو ہماری مایہ ناز ایجنسی کے سابق سربراہ رہے ہیں سب سے زیادہ رگیدااور گھسیٹا ہے۔ ہمارے بہت سارے جمہوریت پسنددوست جو شجاع پاشا کو ابو انصاف یعنی تحریک انصاف کے باپ یا خالق کے طور پر ناپسند کرتے ہیں وہ اس پر بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ مجھے بنیادی طور پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے معاملے میں ا پنی فوج، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہاں، کچھ واقعات اور روئیے ضرور قابل اعتراض ہیں جو بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے شجاع پاشا کو ایس ایم ایس کے ذریعے عدالت سے امریکیوں کو اطلاعات فراہم نہیں کرنی چاہئے تھیں کہ وہ امریکیوں کے نہیں بلکہ پاکستانیوں کے مفادات کے محافظ تھے مگر یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانیوں نے امریکی جاسوس کو تھانوں، جیلوں اور عدالتوں میں گھسیٹنے میں کامیابی حاصل کی، اسی تصویر کانظر انداز ہوجانے والا ایک پہلو یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مطالبے کے باوجود گرفتار امریکی شہری کو سفارتی اسٹثنیٰ دینے سے انکا رکر دیا تھا۔ اس وقت دفتر خارجہ پر کوئی جذباتی بیان نہ داغنے پر تنقید بھی ہوئی مگردفتر خارجہ کاقابل تحسین کردار یہ ہے کہ اس نے استثنیٰ کے حوالے سے کوئی سرٹیفیکیٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع نہیں کروایا تھا اور صوبے کی سب سے بڑی عدالت نے معاملے کو لاہور کی مقامی عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
فہیم اور فیضان کے گھر والوں کو ڈیڑھ مہینے بعد تیس کروڑ روپے کی خطیر رقم مل گئی تھی،مجھے اپنے معاشرتی رویوں کے ایک معمولی طالب علم کے طور پر افسوس کا اطہار کرنا ہے کہ فہیم اور فیضان کے گھر والوں کے لئے یہ رقم منحوس ثابت ہوئی، بہرحال اس رقم کی نحوست اور اس خاندان کا عبرت ناک انجام میرا موضوع نہیں، میرا زورتو اس بات پر ہے کہ خون بہا کی رقم کے بدلے میں ریمنڈ ڈیوس کو دی جانے والی معافی کا واضح اور صاف مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی ریاست، جس میں فوج ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں شامل ہیں، ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ دینے کے لئے تیار نہیں تھیں، اس کا مقدمہ لڑنے والی ٹیم بھی حکومت پر دباو کے ذریعے ریمنڈ ڈیوس کو اڑا لے جانے میں ناکام ہو گئی تھی لہذا اس اسلامی قانون کا فائدہ اٹھایا گیا جس کا مقصد بہرحال کچھ اور تھا یوں پاکستانی ریاست نے جھکنے سے بھی گریز کیا اور سپر پاور کے ساتھ ایک معاملے کا حل بھی نکال لیا ۔ میں اس حل کو آبرومندانہ نہیں سمجھتا، یہ ہمارے بارے میں اس تاثر کی حمایت کرتا ہے کہ ہم پیسے لے کر کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر دوسری طرف اسلامی قانون کا معاشرے کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے یہ ضابطہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بچانے کا سبب بن گیاکیونکہ بہرحال ایک سفارتی جنگ ضرور اس وقت شروع ہو چکی تھی۔ مجھے اپنا گمان بلکہ یقین ظاہر کرنے میں عار نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس امریکہ کا ایجنٹ تھا مگر مجھے یہ کہنے میں بھی عارنہیں کہ ہمارے پاس ایسے ثبوت ہی موجود نہیں تھے کہ ہم اس پر کل بھوشن کی طرح الزام ثابت کر سکتے۔
ریمنڈ ڈیوس خون بہا کے قانون کا فائدہ اٹھا کے فیصلے والے دن ہی پاکستان کی حدود سے باہر نکل گیا، اسے ہیلی کاپٹر پر افغانستان پہنچایا گیا اور وہاں سے وہ امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے خود پر لوٹ مار کے لئے حملہ کرنے والے فہیم اور فیضان کو جان سے کیوں مارا، اس کا جواب دو برس بعد مل گیا کہ وہ غصے میں کچھ بھی کر سکتا تھا جب سی آئی اے کے اس ایجنٹ کوڈ گلس کاونٹی ڈسٹرکٹ کورٹ میں چلنے والے مقدمے میں دو برس کی قید کی سزا سنا دی گئی۔اس نے کولارڈو میں ہیگل سٹور کی پارکنگ میں تنازعے پر چیف مائس نامی شخص پر تشدد کیا جس پر اس کی کمر کے دومہرے متاثر ہوئے۔ میرے ذہن میں ایک سوال ضرور ہے کہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ تئیس لاکھ ڈالر کی یہ خطیر رقم امریکی حکومت نے ادانہیں کی، میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اگر یہ رقم امریکیوں نے ادا نہیں کی تو پھرفہیم اور فیضان کے گھروالوں کو ادائیگی کس شخصیت نے، کس قانون کے تحت اورکس مد میں کی تھی۔
بہرحال، مان لیجئے کہ اگر آپ ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی لگا دیتے تو اس کے سنگین نوعیت کے اثرات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مرتب ہوتے، خارجہ پالیسی کے نازک معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں جذباتیت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مجھے سوشل میڈیا پر گالم گلوچ بریگیڈسے بھی کہنا ہے کہ ہر معاملے کا فیصلہ گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں کی ذہنیت کے مطابق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی ریاست پر اعتماد کرنا چاہئے کہ ہم ہر فیصلہ غلط نہیں کرتے، کچھ درست بھی ہوتے ہیں، ہم سب کو ریمنڈ ایلن ڈیوس نہیں ہونا چاہئے جو بھرے چوک میں گولیاں چلا ئیں اوراپنے ملک کو مصیبت میں ڈال دیں۔
شہر یاراں/ نجم ولی خان